Ad Code

New Update
Loading...

Shailesh Matiyani Story- Memood/کہانی میمود- شیلیش مٹیانی

 



ہندی کہانی- میمود

مصنف- شیلیش مٹیانی

مترجم- فرید احمد

 

مَحمُود پِھر سے زُور باندھنے لگا تو جَدّن نے داہنا کان مروڑتے ہوئے اسکا چہرہ  اپنی کی طرف موڑ لیا۔ منھ پر طمانچہ مارتے ہوئے بولی- "مُلا دوپیازہ کی سی داڑھی کیا ہلاتا ہے، سالے! دوں گی ایک کنٹاپ، سب شیخی نکل جائے گی۔ نہ پِدی، نہ پِدی کا شوربہ،  سالے بہت سانڈ بنے گھومتے ہیں۔ اے سلیمان کی امّا، اب میرا منھ کیا دیکھتی ہے، روٹی - بوٹی کچھ لا۔ تیرا کام تو بن ہی گیا؟   دیکھ لینا ، کیسے شانداربچے دیتی ہے۔ اس کے تو سارے بچوں کے رنگ اسی پر جاتے ہیں۔

اپنی بات مکمل کرتے-کرتے ، جَدّن نے کان موڑنا چھوڑ کر ، اسکی گردن پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ اب محمود بھی آہستہ سے پلٹا، اور سر اُنچا کر کے جَدّن کا  کان منھ میں بھر لیا، تو وہ چیخ پڑی، 'اری اُو ،سلیمان کی امّی ، دیکھ تو سالے اس شیطان کی کرتوت زرا اپنی آنکھوں سے۔چغد کان موڑنے کا بدلہ لے رہا ہے۔ اے میمود ۔ سالے ، دانت نہ لگانا، نہیں تو تیری خیر نہیں۔

اچھا، لے آئی تو روٹیاں؟ اری، یہ تو راشن کے گیہوں کی نہیں ، دیسی کی دکھتی ہیں۔ لا اِدھر۔ دیکھ تونے حرامی کیسے کان منھ میں بھررا تھا؟ اب تجھے یقین نہیں آئے گا ، رحیمن! یہ سالا تو بالکل انسانوں کی طرح جذباتی ہے۔

جانور تو گونگا ہوتاہے،شرافت کی اماّ ! البتہ انسان اس میں جذباتوں کا عکس ضرور ڈھونڈ تا ہے۔ تم تو اس نامراد بکرے کا اتنا خیال رکھتی ہو ، ماں اپنی اولاد کا کیا رکھتی ہو گی۔

رحیمن نے دونوں روٹیاں جدّن کو پکڑا دیں تھیں اور بکرا اب روٹیوں کے ٹکڑے چبانے میں مشغول ہو گیا تھا۔ ایک ٹکڑا وہ جب پوری طرح نگل لیتا ، پھر سے جدّن کو اپنے سینگوں سے ٹھیلنے لگتا تھا۔ 'صبر نام کی چیز تو خُدا نے تجھے  کسی بھی بات میں بخشی نہیں ۔' کہتے ہوئے پھر جَدّن نے اپنا رُخ رحیمن کی طرف کر لیا۔ انسان جب بوڑھا ہو جاتا ہے، تب کوئی ایسا اُسے چاہئے، جو اس کے آ کہنے سے آئے اور جا کہنے سے جائے۔ دنیا والوں کی دنیا جانے ، سلیمان کی امّا ! میرا تو ایک یہی نا مراد محمود ہی ہے، جس سالے کو خُلداباد کی نبی والی گلی سے آواز لگاؤ ں کہ –'میمود! میمود! میمود! ' تو چغد نخاص کونے کے بوچڑکھانے کے کُوڑے کھانے پر پہنچا ہوا پیچھے پلٹتا ہے۔ اور بیں-بیں کرتا وہ دوڑ کے آتا ہے میری طرف  کہ تو جان، سگی اولاد کیا آئے گی۔  بس سالا جب کُنبہ پرستی پر نکلتا ہے، تو میری کیا خُدا کی بھی نہیں سنے گا۔ پھر بھی آواز لگا دوں، تو ایک بار پلٹ کربیں کر لیےگا، بھلے ہی بعد میں اپنی امّاؤں کی طرف دوگنی رفتار سے دوڑ پڑے ۔

اپنی بات مکمل کر جَدّن ہنس پڑی،  تو اس کے چِھدرے  اور کتھّئی رنگ کے بھدّے دانتوں میں ایک چمک سی دکھائی دے گئی۔ خستہ حال اورپیوند لگے بُرقعہ میں سے بڑھاپے کا مارا ہوا چہرا  اُدھاڑے رہتی ہے   جَدّن ، تو چُڑیل کی سی صورت نکل آتی ہے۔

'جب اِس قصایوں کے نوالہ کا قصہ بیان کرنے لگتی ہو تم، شرافت کی امّا ، میر گنج والیوں سی چمک آ جاتی ہے تم میں! اپنی  بہت دور نکل چکی بکریوں کو ایک نظر دیکھ لینے کے بعد ، رحیمن نے مذاق کیا اور خود بھی ہنس پڑی۔

تم خود اب کون سی جوان رہ گئی ہو رحیمن ؟ آخرکار تجربہ کار عورت ہو ! تم جانو، ایک یہ بے زبان جانوار اور دوسرے معصوم بچے ــــ بس یہ دو ہیں، جو انسان کی عمر ،اس کے جسم اور اس کی خوبصورتی- بد صورتی پہ نہیں جاتے، بلکہ صرف نیکی-بدی اور نفرت-محبت کو پہچانتے ہیں۔ ہماری شرافت کی بنّوں تو تمہاری ہزار بار کی دیکھی ہوئی ہے۔  خوبصورتی اور نور میں  اس کے مقابلہ میں حاجی لعل محمد بِیڑی والوں یا شیروانیوں  کے یہاں بھی مشکل سے ملے گی، رحیمن ! مگر تو یہ جان کہ میرا میمود اس کی شکل  دیکھتے ہی منھ پھیر کے ، پچھاڑی گھما دیتا ہے۔ بد گمان کہتی ہے ، ناقابلِ برداشت بُو مارتا ہے اور یہ کہ 'امّا  ہمارے بچوں کو چھوڑ دے گی لیکن یہ بکرا نہ چھوٹے گا۔' .....  میں کہتی ہوں ، تیری کمسنی اور خوبصورتی پہ لعنت ہے۔ لاکھ پوُڈر، عطر چھڑکے تو میرا میمود تیرے کہے پہ تھوک کے نہیں دیگا۔ جانوار اور بچے تو انسان کی چمڑی نہیں، نیت دیکھتے ہیں، نیت! مجال ہے کہ نوابزادی کے ہاتھوں سے ایک لقمہ میرے میمود کے منھ کی طرف چلا جائے! تجھ پہ خُدا رحم کریگا رحیمن! دیکھنا، پہلے تو تین، نہیں دو بچے کہیں گئے نا۔!.... خُدا قسم ، یہ روٹیاں تونے اس نا مراد کے نہیں میرے پیٹ میں ڈال دی ہیں۔محلہ والے تو بس، سرکاری مویشی سمجھ کر چلے آتے ہیں ۔ یہ نہیں ہوتا کم نصیبوں سے کہ دو روٹیاں یا مٹھی بھر دانا بھی ساتھ لے آئیں۔ اَرے بھئی، میمود جو دھوپ میں کھیل کے واپس آنے والے معصوم بچوں کی طرح مرجھا جاتا ہے ، یہ تو صرف جَدّن کو ہی دکھائی دیتا ہے، یا اُپر والے خُدا کو۔ تو جان، پچھلے سال کی بکرا عید کے آس-پاس پیدا ہوا  ہوگا اور اب سال اُپَر ساڑھے تین مہینہ کا ہو لیا۔

جَدّن محمود کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کھٹولے سے  اٹھ کھڑی ہوئی تھی کہ 'اچھا، سلیمان کی امّا ، چلوں گی۔ شرافت کے ابّا کی دوپہر کی نماز کا وقت ہو رہا ہے۔ سنا ہے، آج شاہ نواز کے ابّا لوگ بھی آنے والے ہیں رائے بریلی سے۔' تبھی رحیمن نے کہاکہ 'تم سوا دیڑھ سال کا بتاتی ہو ، مگر اس کی ران-پٹھے دیکھ کے کوئی تین سے نیچے نہیں کہے گا! بیس-پچیس سیر سے کم گوشت نہیں نکلے گا اس بکرے میں، لگتا ہے تم نے روٹی-دانے کے علاوہ گھاس سے پرورش کی ہی نہیں۔ '

حلانکہ رحیمن نے  تمام باتئیں محمود کی تعریف میں کہیں تھیں، لیکن جَدّن کا پورا چہرہ  غصے سے بھر آیا، 'اَری اُو رحیمن ، آگ لگے تیرے منھ میں۔   مطلب نکل گیا تیرا ۔ تو تو میرے میمود کا گوشت تولنے بیٹھ گئی؟ تیرا شوہر تو بڑھئی ہے نا، یہ قصایوں کی گھر والیوں کی سی بات کہاں سے سیکھی ہو؟ یا خُدا، حیا اور رحم نام کی چیز انسانوں میں رہی ہی نہیں! گوشت خوری   کی نظر اور قصائی کی چھُری میں کوئی فرق تھوڑی نا ہوتا ہے۔ اَری رحیمن، کہہ دیتی ہوں- آگے سے ایسی بےحودی باتئیں نہ کرنا اور آئیندہ  سے اپنی بکری کہیں دوسری  جگہ لے جانا۔ کوئی سسُرا پورے خُلدآباد میں میرا  ایک میمود ہی تھوڑی ٹھیکا لئے بیٹھا ہے۔'

'اَری جَدّن ، اب بڑے گھرانے کی بیگم جیسے تیور نہ دکھاو! بکرا نہ ہو گیا سسُرا حاتمتائی ہو گیا تمہارے واسطے!' رحیمن نے بھی جھڑک دیا اور  مذاقیہ انداز میں بولی-'وہ جو ایک مثال ہے ، تم نے بھی سنی ہوگی- بکرے کی امّا آخر کب تک دعائیں کرےگی؟ اور جَدّن ، سنانے والے کو سننا بھی سیکھنا چاہئے۔

ہم سے پوچھوں، تو حقیقت یہ ہے کہ تمہارے تو اولاد  ہوئی نہیں۔ سوتیلے کو نہ تم نے ا کلیجہ کے قریب آنے دیا اور نہ ان نا مرادوں سے تمہارے سینے سے دودھ اتارا گیا۔ بس، یہ ہی وجہ ہے کہ تم اس داڑھی والے بکرے کہ 'میرا میمود، میرا میمود! ' پکار کے اپنی جلن بجھاتی ہو۔

جَدّن آگے بڑھتی ہوئی ایسے رک گئی جیسےبچھو نے کاٹ  لیا ہو۔ اس کا چہرہ غصہ میں تمتمانے  کے بعد، لاچارگی سے سیاہ پڑ گیا۔رحیمن جو دل تونے میرا دکھایا ہے، خُدا تجھے سمجھے گا۔  اور  رہی بکرے کی امّا و الی مثال ، تو انسان کی امّا کی ہی دعا کہاں بہت لمبے تک اثر کرتی ہے؟ کرتی ہوتی تو تیرا بڑا بیٹا سلیمان آج جوان ہو چکا ہوتا اور تو صرف نام کی سلیمان کی امّا نہ رہ جاتی۔ ایک لمحہ خاموش رہ کر ر،حیمن !  خدا مجھے معاف کرے، میں تیرے اپر بیتی کا مذاق اُڑانا نہیں چاہتی تھی- صرف اتنا کہنا چہتی ہوں، درد انسان کو اپنے جزبات کا ہوتا ہے۔ جس سے جزباتی رشتہ نہ ہو، اسکا کس  بات کا  ماتم ؟  سلیمان کی امّا ،اتنا تو میں بھی جانتی ہوں  کہ بکرے نے آخر کٹنا ہی کٹنا ہے۔  قصایوں سے کون سا بکرا بچا ہے آج تک ؟ مگر میری اتنی التجا ضرور ہے پروردگار سے ، میری نظروں کے سامنے نہ کٹے۔ شرافت کے ابّا سے کہہ بھی چکی ہوں ، اس نا مراد کو جب فروخت کرنے لگو تو  پہلے شہر کا ، کم سے کم محلہ کا فاصلہ ضرور رکھنا۔ یہ بھی ٹھیک ہے، سوتیلے نے مجھے  سگی امّا کی سی عزت نہیں بخشی، یہ کینا سرار جھوٹ  بول کے جہنم میں جانا ہوگا، مگر جو محبت مجھے اس جانور نے دی ۔امّا-ابّا نے دی ہوگی ، تو دی ہوگی۔

رحیمن سے کوئی جواب نہیں بن پایا۔ وہ صرف یہ دیکھتی رہ گئی کہ جَدّن نے برقعہ کے پلو سے اپنی آنکھیں  پونچھی اور بکرے کی  پیٹھ تھپتھپا تی ہوئی، اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی۔

جَدّن جب تک گھر پہنچی ،اشرف نماز پڑھنے بیٹھ چکے تھے۔

بیت الخلا کی بگل  کی تنگ کوٹھری میں بکرے کو بند کرتے ہوئے، جَدّن بولی-'شرافت کے ابّا دوپہر کی نماز پر بیٹھ چکے۔ اب تو کہاں مارا-مارا پھرےگا۔ شام کے وقت نکالوں گی۔اس سال ابھی سےلُو چلنے لگی ہے۔'

کھانے پر بیٹھے تو اشرف بولے- 'شرافت کی امّا ، رائے بریلی والوں کا پیغام آیا تھا، تم ہیں معلوم ہی ہوگا۔ ہم لوگ تو تنگدستی میں چل رہے ہیں، مگر مہمانوں کے سامنے تو اپنا رونا نہیں رویا جاتا، عزت دیکھنی پڑھتی ہے۔ شرافت اور ظہیر سے بات ہوئی تھی۔  لڑکے ٹھیک ہی کہہ رہے تھے کہ بازار میں دس روپیہ کلو کا بھاؤ ہے۔ پانچ -چھ لوگ شہناز کے گھر سے  اور بھلے-برے میں دس-پانچ  اپنے آپس والوں کو بلانا ضروری سا ہوتا ہے۔ دوسروں کی دعوت کھاتے ہیں، تو اپنی شرم رکھنی ہی  پڑے گی۔ شرافت تو یہ ہی کہتا ہے کہ  امّا سے پوچھ کے دیکھ لو۔ تمہارے بکرے کو کٹوا لیں تو  گھر کا خرچ نہیں ہوگا، بس روغن جوش اُبال دینے سے تو کام چلےگا نہیں ۔  کباب اور کوفتے، بڑی بہت عمدہ بناتی ہے۔ پچھلے سال  جب ہم رائے بریلی گئے تھے تو شہناز کے ابّا نے دو بکرے ہی کٹوا دئے تھے اورمرگیوں کی گنتی کون کرے۔ چار-پانچ دن کل جمع رہے ہوں گے، گوشت کھا-کھا کر  پیٹ پھول گیا تھا ۔ ان کے مقابلہ میں ہم لوگ غریب ضرور ہیں ، لیکن ضروری نہیں کہ اپنی کم نیت کا ثبوت  بھی دیں۔'

اشرف تمہید باندھتے جا رہے تھے اور جَدّن کا چہرہ کھچتا جا رہا تھا۔ گھر کے سبھی افراد جانتے تھے کہ امّا سے بکرے کو نکالنا بہت آسان نہیں  ہوگا۔ اشرف جب باتئیں کر رہے تھے، شہناز چپکے-چپکے اپنے بچے کو پُلاو کھلا رہی تھی۔ اور سہم رہی تھی کہ کہیں امّا  آسمان کی طرح نہ پھٹ پڑئیں۔ منھ اس کا دوسری طرف تھا، لیکن کان جَدّن کی طرف لگے ہوئے تھے۔ جیسے ہی جَدّن نے ہلکی اور تلخ آواز میں کہا کہ 'شرافت کی لِیلا تو میرے میمود کی جان کو آ گئی ہے۔'    شہناز دبی آواز میں بولی-'امّا یہ تہمت ہمیں نہ دی جئے۔ یہ بیٹھے ہیں سامنے پوچھ لی جئے، ہم تو مسلسل منع کرتے رہے ہیں کہ امّا بہت جزباتی ہیں، انکو کوئی نہ چھیڑے۔ خرافاتیں یہ کرینگے اور امّا کا غصہ  اپنے بیٹوں کی جگہ ہم بے قصوروں پر گِرے گا۔'

شہناز کے کہنے کچھ ایسی عاجزی اور احترام کا جذبہ تھا کہ جَدّن کا  رویہ بدل گیا، شرافت کے ابّا ، بکرے کو میں نے اپنی چھاتی پر باندھ کر تھوڑی لے جانا ہے؟ رحیمن ٹھیک ہی تو کہتی تھی کہ جَدّن آپا، بکرے کی ماں کہاں تک خیر منا سکتی ہے!  میری خواہش تو صرف اتنی ہے کہ اس سالے نامراد جانور کے اٹھنے- بیٹھ نے، ہگنے-موتنے کی باتئیں بھی میری یادداشت کا حصہ بن گئی ہیں۔ چھوٹا میمنا تھا، جب تم لوگوں نے ہی دیکھا اور ہزار بار ٹوکا کہ بکرے کو اولاد کی طرح سلاتی ہے۔ کیا کرتی سردی اتنی پڑتی تھی  اور بن ماں کا یہ بچہ تھا! خیر، میری تو اتنی سی صلاح ہے کہ مہمان آیئں، تو انکی عزت ہماری عزت ہے۔ ظہیر سے کہیئے، کہیں اُدھر کٹرے- کنڈیل گنج کی طرف کےقصایوں کے ہاتھ  بیچ آئے، اور اس کے پیسوں سے چاہے تو گوشت لے آئے یا دوسرا بکرا خرید  لائے۔ اسکا تو گوشت بھی بو مارےگا۔ اور خُدا جانتا ہے ، میں نے تو اب اپنا دل خود ہی قصائی سا بنا لیا  کہ اس حرام زادہ کو تو کٹنا ہی ہے۔  میں ہی اُلّو کی پٹھی تھی، جو اس کو  خوراک دے کر گوشت خوروں کے لئے موٹا کرتی رہی۔

حالانکہ یہ ساری باتئں جَدّن نے نہایت ہی ٹھنڈی آواز اور مایوسی سے کہیں تھیں، لیکن سبھی جانتے تھے کہ غصہ اس وقت اس کے جسم میں خون کی طرح دوڑ رہا ہوگا۔

تو اپنی مایوسی اور بے حِسی کو کمرے میں خِزاں کے پتے کی طرح جھاڑتے ہوئی جَدّن اٹھ کھڑی ہوئی، تو شہناز بولی-'بکرے کا گوشت بو دے گا  یہ کہنےکے پیچھے امّا کا خاس  مقصد ہے۔ آپ ان دونوں سے کہ دیجئے کہ امّا سے ضد نہ کرئیں۔ '

اشرف میاں نے ایک لمبی سانس لی اور بولے-'اس کو دیکھتا ہوں ، تو گزرے ہوئے دن یاد آنے لگتے ہیں۔ شرافت اور ظہیر جب چھوٹےتھے،  تبھی بڑی چلی گئی تھی۔ اس نے  ہم لوگوں کو کبھی اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا کہ  بوڑھے کی بیوی مر گئی ہے یا بچوں کی امّا۔ تم لوگ تو اب دیکھ رہے ہو، جب نہ اس میں آب رہی نہ تاب ۔ بکرا کٹ ہی جائے تو اچھا ہے پاگلوں کی طرح دھوپ میں ماری- ماری پھرتی ہے۔ وہ سسُرا کبھی ٹھکانے تو رہتا نہیں ۔ کٹے تو کچھ دن ہائے-توبہ کر لیگی ، اور کیا! روز روز کی فجیعت تو دور ہوگی۔ دیکھنا مہمانوں کے سامنے امّا یوں پیوند لگا برقعہ نہ پہن آئے! وقت کی مار بھی کیا مار ہے۔دیکھتیے ہو آدھا کھایا اور اٹھ گئی۔ جب تم لوگوں کی عمر کی تھی، تب باسمتی کی قسمیں دیکھی جاتی تھیں کہ زردہ پلاو کے لئے باریک والی باسمتی ہو ۔ اب یہ راشن کے چاولوں کو پیلا کرنا تو ہلدی کی بے عزتی کرنا ہے۔ '

اسی وقت بڑا بیٹا ظہیر آ گیا، تو اس کو تمام حالات سے واقف کرایا گیا۔ وہ لا پرواہی کے ساتھ بولا-'آپ لوگ بے کار میں بات کو بڑھائے جاتے ہیں۔ امّا کو میں سمجھا دوں گا۔ اب یہ کوئی  بکرے کے پیچھے ڈوڑنے کی عمر ہے؟ سڑک پر بھاگتی دکھتی ہیں، تو شرم شار ہوکے رہ جاتے ہیں ہم لوگ۔ بھوکھی-پیاسی اور پھٹےحال دوڑی چلی جائیں گئ۔ میری مانئے تو سلیم قصائی کو بلوا لئیں اور مہمانوں کے آنے سے پہلے کھال اتار کر  کیما کوٹ کر رکھ دیں، رانئیں پلاو میں ڈلوا دیجئے اور اس وقت کے گوشت میں سینا-چاپ-گردن کی بوٹیاں تھیک رہئں گی۔جو خاطر گھر کی چیز سے ہو سکتی ہے، وہ دو-ڈھائی سو میں بھی نہیں ہوگی۔'

زبیدہ کی امّا بھی یہی کہےرہیں تھیں  کہ سولہ روپیہ وہ دے گی، بیس-تیس روپیہ شاید، یہ شہناز بھی دینے والی تھی۔  کہ امّا اپنے بیٹوں کو تو بخش دیگی، ہمیں نہیں۔اب ان بے وقوفوں کو کون سمجھائے کہ  دو کلو گھاسلیٹ اور روغن مسالہ کرتے -کرتے سو روپیہ نکل جائیں گے۔  راشن کا چاول تو مہمانوں کے لئے پلاو میں استعمال ہوگا نہیں اور ڈھنگ کی باسماتی ساڈھے چار-پانچ سے کم نہیں۔ انسان کو اپنا وقت اور سہولت دیکھ کر چلنا چاہئے، جزباتوں پر چلنے کے دن گئے۔'

کہتے ٹھیک ہو بیٹے میری بھی یہ ہی رائے ہے۔ تم امّا سے مل کر اُنچ-نیچ سمجھا دو۔ ضدی ضرور ہیں، لیکن نا سمجھ نہیں۔ کہتے ہوئے اشرف میاں اٹھ کھڑے ہوئے، تو انکے گھٹنوں کے چٹکھنے کی آواز صاف-صاف سنائی دے گئی۔ ظہیر کی گھروالی یہ کہتے ہوئے اٹھ کھری ہوئی کہ 'تم لوگ شروع کرو میں ابّا حضور کے ہاتھ دھلوا دوں۔'

کھانا کھا چکنے پر ظہیر سیددھے کمرے میں گیا کہ امّا سوئی ہوگی، لیکن شہناز نے بتایا کہ امّا یہ کہ کر گئی ہے کہ رِضوی صاحب کے گھر تک جائے گی۔ ان کے گھر پچھلے ہفتہ غمی ہو گئی تھی۔  کہہ کر گئی کہ شاید شام ہو جائے، دیر سے لوٹےگی۔ میرا خیال ہے کہ امّا نے سمجھ لیا ہے کہ اب بکرا بچےگا نہیں۔ غمی میں شریک ہونا تو ایک بہانہ ہے، گھر سے دور جانا چاہتی  ہوگی۔'

شہناز ہلکے سے ہنسنا چاہتی تھی، لیکن صرف مایوس ہو کر رہ گئی۔

ظہیر نے باہر نکل کر، اپنے گیارہ-باری سال کے بڑے لڑکے سے کہا ، زبیدہ زرا سلیم کو بلا کر لاو ۔ مہمانوں کے آنے تک صفائی ہو جائے تو ٹھیک رہے گا۔ زبیدہ کی امّا بھئی تم لوگ باہر والا کمرا مہمانوں کے لئے ٹھیک-ٹھاک کر دینا۔ شہناز کے ابّا لوگوں کو کسی طرح کی کوئی شکایت نہ ہو۔ بے چارے ہر فصل پر چلے آتے ہیں  اور ہر بات کا لحاظ رکھتے ہیں۔ خود تمہارتے ساتھ اپنی سگی بیٹی سے زیادہ محبت  کرتے ہیں ۔ تم دونوں لوگ پیاز اور مسالہ وغیرہ پیس کر تیار کر لینا۔ باقی بازار کا سامان شرافت لے آئےگا۔ سلیم آ جائے تو اس سے کہہ دینا ، کہ گند زرا بھی نہ چھوٹے آنگن میں ۔ پوچھا لگوا لینا۔ خون کے دھبے دیکھے گی امّا تو ، اور بگڑے گی۔ تم لوگوں سے کچھ کہنے لگے تو کہہ دینا، جاوید کے ابّا نے زبردستی کٹوا دیا۔ میں انہیں سمجھا  لوں گا۔

شام کی جگہ گھڑی-بھر رات بیتنے کے احساس میں ہی، جدّن گھر واپس لوٹی اور گلی میں سے  ہوتے ہوئے، گھر کے پیچھے والے تنگ   آنگن میں نکل گئی۔ کھٹولا گرا کر اس پر لیٹ گئی اور، آس-پاس کے نیم اندھیرے میں اپنے آپ کو چھپا لینے کی کوشش میں آنکھیں بند کر لیں۔

مہمان آ چکے تھے اور ان کی باتوں کی آوازیں  سنائی دے رہی تھیں۔  چھوٹے بچوں کو باہر لےکر آئی ،تو   شہناز نے دیکھا  اور قریب آکر پاؤ دبا تی ہوئی بولی،'ابّا آ گئے ہیں۔ آتے ہی آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے کہ امّا  نے پچھوایا  ہے ، کیسی ہیں؟ کبھی رائے بریلی کی طرف آنے کی التجا کروا رہی ہیں۔ میں نے بھی ابّا سے کہ دیا کہ اب کی دفعہ میں امّا کے ساتھ آؤں گی۔ امّا،  تم کھانا کہاں کھاوگی؟ مہمانوں کا دسترخوان تو وہیں باہر بیٹھک میں بچھےگا۔ جلد ہی کھا-پی لینے کی باتئیں کر رہے تھے سبھی لوگ۔ کوئی مذہبی فلم شہر میں   کہیں لگی ہوئی ہے '

میرے لیئے دو روٹیاں یہیں بھجوا دینا ۔ میرا نہ دل ٹھیک ہے نہ پیٹ۔ زبیدہ کو زرا بھیج  دینا، میں اس سے کچھ مانگ لوں گی۔ تم سب لوگ آرام  سے کھاو-پیو۔ میری فکر نہ کرنا۔ اب تو کوئی سردی نہ رہی۔ میں یہیں سو جاوں گی۔ اپنے ابّا حضور سے میرا سلام کہنا اور کہنا  کہ صبح دعا سلام ہوگی، ابھی امّا کا دل ٹھیک نہیں ۔

شہناز نے محسوس کیا کہ جدّن کی آواز مرتے وقت کی سی ہو گئی ہے۔ نہایت ہلکی اور بے جان۔ وہ چاہتی تھی کہ کچھ باتئیں کر کے اس کی مایوسی کو کم کرنے کی کوشش کرے، لیکن اس خوف سے خاموش رہ گئی کہ کہیں اندر اکٹھا کیا ہوا درد ، غصے کی شکل میں باہر پھوٹ آیا ، تو گھر کا ماحول بدل جائے گا۔ آج کے وقت کو تو یوں ہی ٹال دینا ہی اچھا ہے۔

واپس لوٹ کر اس نے بتایا ، توظہیر اور اشرف میاں ، دونوں نے منھ بنا لیا۔

'ہم لوگوں نے توہر ممکن کوشش کی ہےکہ کہیں سے بھی اس نا مراد بکرے کی کوئی بھی چیز امّا کو نہیں دکھے۔ وہ تو اتنی سنجیدہ ہو گئی ہیں ، جیسے بکرے کا حلال کیا ہوا سر آنگن میں ٹنگا ہو۔ کہ رہی تھیں کہ  گوشت پلاو وغیرہ کچھ مت بھیجنا  ۔' شہناز نے کہا تو سرف میاں اٹھ کھرے ہوئے ۔ بولے- 'جب اسے کھلانا ہو تو ہمیں بلا لینا۔ کیوں بھائی زُبید تم کہاں تشریف لے جا رہے ہو؟ زرا بیٹھک میں مہمانوں کے قریب رہو۔'


چاچا جی نے پیچھے بیجا تھا  بڑی امّا کے پاس۔ انہوں نے چار آنے ہمیں دئے ہیں کہ  'جاو ، شمبھو پنڈت کی دُکان سے آلو کی سَبزی لے آو۔'

'ابے اِدھر لا چونّی۔ جا ، مہمانوں کو پانی-وانی پوچھنا۔ امّا کو ہم دیکھ لیں گے'۔ شہناز بیٹے، ایسا کرو-'ایک تھالی میں پلاو اور بڑی کٹوری میں گوشت لا کر ہمیں دے دو۔ ہم لے جا کر سمجھا دئے گے۔ واقعی بہت بے وقوف قسم کی عورت ہے۔ ظہیر ، تم باہر بیٹھک میں دسترخان بچھانے میں لگو۔ شرافت کے علاوہ اور ایک دو  لڑکوں کو ساتھ لے لو۔'

پلاو کی تھالی اور گوشت کا کٹورا شہناز نے ہی پہنچا دیا۔ کھٹولے کی بگل میں رکھ کر پانی لانے کے بہانہ سے جلد ہی  لوٹ آئی۔اشرف میاں نے قریب سے ماتھا چھوا اور بولے ، کیوں بھئی، ایسے کیوں لیٹی ہو؟ طبعت تو  ٹھیک ہے نا؟ اری سنو ، سارے کئے کرائے پر مٹی نہ ڈالو ۔ تم ناراض رہوگی تو ساری مہمان نوازی پھیکی پڑ جائے گی۔ سارا گھر کباب گوشت اڑائے اور تم اس شمبھو پنڈت کے یہاں کے پانی والے آلو منگواو،  یہ تو ہم لوگوں کو جوتی مار نے کے برابر ہے۔ ایسی بھی کیا بات ہو گئی جو تم نے کھٹیا پکر لی؟ گوشت سے تمہیں کبھی پرہیز رہا نہیں۔ بنا شوربے کے روٹی گلے  کے نیچےتمہارے اُترتی نہیں ۔ اب اس حد تک جزباتی بنے سے کوئی فائدہ نہیں ، آخر جن بکروں کا گوشت تم آج تک کھائی ہو ، ان کے کوئی چار سینگ تو تھے نہیں ۔ لو شہناز کھانا دے گئی ہے۔ گوشت واقعی بہت لزت دار  بناہے۔ ظہیر تو دوسرا بکرا بھی دھونڈنے بھی گیا تھا، لیکن لوٹ کر یہی کہنے لگا کہ 'ابّا اپنا  بیچنے جاو تو سو کے پچاس دیں گے اور دوسروں کا خریدنے جاو تو پچاس کے سو  لگاتے ہیں۔ تم تو گھر کی اس وقت جو اندرونی  حالت ہے جانتی ہی ہو۔'

 جَدّن ایسے اٹھی ، جیسے قبرستان میں گڑا ہوا مُردا کھڑا ہو رہا ہو۔ ترچھی آنکھوں سے اشرف میاں کی طرف اسنے دیکھا اور آواز مہمانوں تک نہ پہنچے، اس قدر دبا کر بولی-'ظہیر کے ابّا، نصیحتیں دینے آئے ہو ؟ میری تکلیف تم لوگ سمجھوگے؟ رِضوی کے یہاں گھنٹوں پڑی رہی ہوں، تو کیسے یہی میرے تصور میں آتا رہا کہ اب تم لوگ میرے میمود کے سر کو دھڑ سے  کیسے جدا کر رہے ہوگے۔ زار -زار روتی رہی ہوں ، اور رِضوی کی بیوی  یہ سمجھ کے مجھے سمجھا رہی ہے کہ میں اس کے بد نصیب بھائی کی موت پر رو رہی ہوں۔ آج سسُرا سویرے -سویرے سے بار-بار میرے کان منھ میں بھرے جاتا تھا  اور میں منھ پکڑ کر  دھکّا دے دیتی تھی ۔ میں کیا جانوں بد نصیب چپکے سے کان میں  یہی کہنا چاہتا تھا کہ 'امّا آج ہم چلے جائے گے! تم لوگ سمجھوگے میری تکلیف  کہ کیسے میرے لبوں پر 'میمود ' کی سدا  آئے گی اور ختم ہو جائے گی؟'

جَدّن بہت دیر تک پھوٹ -پھوٹ کر روتی رہی اور اشرف میاں ہکاّ-بکاّ  بیٹھے رہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ حالات اب کیسے سبھالیں! آخر کار انہوں نے یہی طے کیا کہ چپ چاپ کھانا اٹھا لے جانا ہی ٹھیک ہے۔

وہ تھالی-کٹورا اٹھاتے کہ جَدّن زہر بھری آواز میں بول اٹھی- 'تم بےدردوں سے یہ بھی نہ ہو ا کہ میں اوّل درجہ کی گوشت خور عورت جب کہہ رہی ہوں کہ 'بیٹے شہناز ، ہمیں گوشت-ووشت مت دینا، تو اسکی کوئی تو وجہ ہوگی؟ اور ظہیر کے ابّا ، انسان ڈاڑھی بڑھا لینے سے پیر نہیں ہو جاتا۔ تم مجھے یہ کیا نصیحت دوگے کہ سبھی بکروں کے دو سینگ ہوتے ہیں؟ اتنا تو نادیدہ بھی جانتا ہے۔ ساری دنیا میں انسان بھی خُدا نے دہ سینگ والے بکروں کی طرح ، دو پاؤ والے بنائے ؟ لیکن عورت تو تبھی رانڈ ہوتی ہے ، جب اس کا اپنا خسم مرتا ہے۔ امّا تو تبھی اپنی چھاتی کوٹتی ہے جب اس سے اس کا بچہ جدا ہوتا ہے۔ یہ میں بھی جانتی ہوں کہ  میرے میمود میں کوئی سُرخاب کے پر نہیں لگے تھے، مگراتنا جانتی ہوں کہ میری تکلیف جتنا وہ  بد نصیب سمجھتا تھا ، نہ تم سمجھوگے نہ تمہارے بیٹے! سمجھتے ہوتے، تو  کیا کسی حکیم نے بتایا تھا کی مہمانوں کو اسی بکرے کا گوشت کھلانا اور تم بھی بھکوسنا، نہیں تو نزلہ زکام ہو جائے گا  ؟ ظہیر کے ابّا ، اصولوں کا تم پہ ٹوُٹا نہیں، مگر اس وقت اب   ہمیں اور ذلیل نہ کرو۔ شہناز سے کہو اٹھا لے جائے، نہیں تو پھینک دوں گی اُدھر! زُبید سے کہ دینا، اب پنڈت کے یہاں سے سَبزی لانے کی بھی کوئی ضرورت نہ رہی۔ میرا پیٹ تو تم لوگوں کی نصیحتوں سے ہی بھر  چکا۔'

اشرف میاں نیچے جھکے اور ٹھالی-کٹورا اٹھاتے ہوئے، واپس آ گئے، لو بیٹے ، رکھو! ضدی عورت کو سمجھنا تو خُدا کے بھی بس کا نہیں ! اسے اس کے حال پر چھوڑ ، مہمانوں کی فکر کرو۔'

 

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ