شیلیش مٹیانی
١٤ اکٹوبر ١٩٣١، اُتراکھنڈ ریاست کے ضلع المُوڑا کے چھوٹے سے گاؤں 'باَڑے چھِینا'میں شیلیش مٹیانی کی پیدائش ہوئی
۔ شیلیش مٹیانی کے آباؤ اجداد' مَٹیلہ' گاؤں کے رہنے والے تھے، جو باَڑے چھِینا' گاؤں سے کچھ میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ وہاں
رہتے ہوئے انہیں 'مٹیانی' کہا جانے لگا۔ شیلیش مٹیانی کا اصل نام 'رَمیش چندر سنگھ
مٹیانی' تھا۔ شیلیش مٹیانی کو ہمالیہ سے خصوصی لگاؤ اور دلچسپی کی وجہ سے 'شیلیش' (ہمالیہ، پہاڑ وں کا راجہ)نام بہت پسند آیا۔
ابتدائی سالوں میں وہ 'رمیش مٹیانی شیلیش' کے نام سے لکھتے رہے اور کچھ عرصے بعد
انہیں اپنا نام تبدیل کر مستقل طور پر' رَمیش مٹیانی شیلیش ' کی جگہ '
شیلیش مٹیانی' اختیار کر لیا اور پھر اسی نام سے آپ تاعمر لکھتے رہیں اور ہندی ادب میں شیلیش
مٹیانی نام سے ہی معروف و مشہور ہوئے۔
بارہ سال کی عمر میں ہی شیلیش مٹیانی
کے والد بِشَن سنگھ مٹیانی،اور کینسر کے مرض کے سبب آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ جس کا ذکر کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ-
"اُس وقت میری عمر بارہ سال تھی۔
شَمشَان -یَاتَرا کی وہ صبح جیسے کسی 'لِینڈ اِسکِیپ' کی طرح ہمیشہ میرے اندر ٹنگی ہی رہی ہے۔دھند سے آدھی ڈَھکیں گھاٹیاں اور اُن کے بیچ میں
جیسے اکیلا۔ بالکل اکیلا میں رہ گیا ہوں۔ 'رام نام سَت ہے.... سَت لفظ آزادی ہے' کی پکار اور اپنےمستقبل کی کمتری کے بےپناہ اندھیروں کے خوف میں ڈوبتا
ہوا.....اور جیسے سوچ سکنے کی تمام طاقت ختم ہو
چکی ہے۔'' [1]
محض بارہ سال کی
چھوٹی سی عمر میں والدین کا سایہ
اٹھ جانا انتہائی درد اور مستقبل کی کمتری کا باعث بنا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد آگے کی تعلیم کا سلسلہ
منقطع ہو گیا۔ گھر کے کام، بکریاں چَرانا، دودھ نکالنا، جنگل سے لکڑیاں اور دریا
سے پانی لانا ہی شیلیش مٹیانی کی زنداگی کا اہم
کام ہو گیا تھا ۔جس کے سبب آپ کی تمام تر صلاحیتیں اور روشن مستقبل کی امید یں رایگاں ہی نظر آ رہی تھیں۔
شیلیش مٹیانی لکھتے ہیں کہ-
"ایک لڑکا ہے۔ عمر لگ بھگ
چودہ-پندرہ سال۔خاکی جَانگھیا اور پوری آستینوں کی قمیض۔ بکھرے ہوئے بال۔ نہایت ہی
گاؤں نما، چھوٹے سے قصبہ کے ایک اُنچھے ٹیلے پر بنے 'اَپر-پرائمری' اسکول کی چھوٹی سی عمارت کے پاس
.......جھاڑیوں میں بکریاں پھیلائے بیٹھا ہوا ہے، تین سال قبل والدین کا انتقال ہو چکا
ہے، لگ بھگ ایک ساتھ۔'اَپر-پرائمری' کی
تعلیم کے ساتھ اسکی طالب عملی زندگی بھی ختم ہو چکی ہے اور اب اس کے سر پر لدھی
ہوئی صرف ایک نا ختم ہونے والی سی پریشانی۔اور ایک نہایت ہی تنہا مستقبل۔ '' [2]
شیلیش مٹیانی کو علم کی پیاس تھی۔ وہ اپنی علمی پیاس کو بجھانے کے لئے
ہردم کوشش کرتے رہیں۔ اُسی وقت ١٩٤٥ ء ، باڑے چھینا
پرائمری سکول میں مِڈل درجہ کی
تعلیم شروع کی گئی۔ شیلیش مٹیانی جب بھی
بکریاں چَرانے جنگل جاتے تو اس سکول کی دیوار پر بیٹھ جایا کرتے اور ماسٹر جی کو
پڑھاتے ہوئے دیکھتے رہتے۔ ماسٹر لچھمن سنگھ گیِلاکُوٹی ،شیلیش مٹیانی کے اس عمل سے
بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے شیلیش مٹیانی کے چاچا سے بات کر شیلیش مٹیانی کو
پانچوے درجہ میں داخلہ کر وا دیا۔ شیلیش مٹیانی مِڈل درجہ میں اوّل رہے اور پورے
علاقہ میں اکیلے ایسے طالب علم تھے جس نے مِڈل کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی۔
ہائی اسکول کی تعلیم کے لئے اَلمُوڑا گئے ۔ لیکن یہاں بھی آپ کی زندگی کو کچھ آرام میسر نہ ہوا۔ صبح سویرے ہی، عُموماً تین
بکروں کو کاٹ کر، ان کی خال نکال کراور صاف کر کے دکان پرلٹکانے کے بعد ہی اسکول جانا ہوتا تھا اور اسکول کے بعد اسی
دکان پر گوشت بیچنا بھی ہوتا تھا۔ زندگی
کی جدوجہد کے ساتھ شیلیش مٹیانی کا تعلیمی سفر ہائی ا سکول تک ہی رہا۔ جس کا ذکر
کرتے ہوئے کہتے ہیں-
"ہائی اسکول کے تین سال قلم- پینسل سے زیادہ گوشت کاٹنےکے چھُروں کے بیچ گزارنے سے لیکر، بےکاری اور بے
سایہ کی آندھی میں ہمالیہ کے علاقہ سے دور سمندر کے کنارے سے لگی ممبئی تک کا
تکلیف دہ سفر میں نا جانے کتنی مرتبہ ایسے ظالمانہ لمحےآئے، جب لگا کہ بس، اس سے آگے شاید اور کچھ نہیں۔"[3]
شیلیش مٹیانی نے 1950 ء میں کہانیاں اور نظم لکھنا شروع کر
دیا تھا۔ ہائی سکول کی تعلیم کے دوران جب آپ اَلمُوڑا شہر میں رہے تو ، آپ کو یہاں
مختلف جرائد اور اخبار پڑھنے کا موقع ملا۔
آپ ہی کے ساتھ کے ایک لڑکے کی نظمیں
الموڑا کے 'شکتی' اور ' کماؤں راج پوت'اخبار میں شائع ہوتی تھیں،۔ جسے دیکھ
کر آپ کے دل میں خواہش اٹھی کہ آپ کی بھی نظمیں
اخبار میں شائع ہوں، جس کے سلسلے میں آپ نے ایڈیٹر سے رجوع کیا۔ لیکن ایڈیٹر نے آپ کو آپ کےکام یعنی قصائی گری کی وجہ سے حقیر سمجھا اور آپ کی
نظموں کو شائع کرنے سے انکار کر دیا۔ اس واقعہ کو شیلیش مٹیانی بیان کرتے ہیں-
"میرے آس-پاس کا ایک لڑکا لکھتا
تھا ، اور اس کی نظمیں وہاں کےلوُکل اخبار
میں چھپتی تھیں۔ جب میں نے کہا کہ میں بھی لکھتا ہوں ، تو پتہ چلا کہ ایڈیٹر نے
بڑی حقارت سے اپنے دوستوں سے کہا کہ اب بُوچڑ-قصائیوں کے لڑکے بھی نظمیں لکھیں گے۔
بات مجھے چُبھ گئی۔ اور میں نے طے کر لیا
اب تو مصنف بن کر ہی رہوں گا۔"
[4]
ہائی سکول پاس کر نےکے بعد ذریعہ معاش اور روزگار کی تلاش
میں اپنے آبائی گاؤں کو چھوڑ کر ١٩٥١ء میں گھر سے نکل گئے اور ہلدوانی پہنچے۔
ہلدوانی پہنچ کرمُوتی رَام سَانگُوڑِی کی مدد سے مَدن مُوہن اُپادھیائے کے رسالہ سے جُڑ گئے۔ کچھ
وقت کے بعد اُپادھیائے جی کا یہ رسالہ بند
ہو گیا اور شیلیش مٹیانی دہلی چلےگئے۔ یہاں
وہ 'امر کہانی' کے ایڈیٹر آچاریہ اُوم پَرکاش گُپتا سے ملے۔ 'امر کہانی' اور 'رنگ محل' میں آپ کی
کہانی پہلے ہی شائع ہو چکی تھی۔ اُوم پرکاش گپتا
نے 'اگروال اینڈ کمپنی' میں نوکری
کا انتظام کر دیا، جہاں شیلیش مٹیانی کو چالیس روپیہ ماہانہ تنخواہ ملتی
تھی۔ دہلی سے الہ آباد جانے کی خواہش کی، لیکن الہ آباد جانے کے لئے پیسہ نہ تھے۔ اسی دوران اُوم پرکاش گپتا کے مشورہ پر آپ نے
'دو راہا' عنوان سے ایک مختصر ناول
لکھا۔ جسے پندرہ روپیہ میں بیچ کر آپ بڑے ادیبوں کی انجمن
یعنی شہرالہ آباد کو چل دئے۔
الہ آباد پہنچ کر کوئی خاص کامیابی
ہاتھ نہ لگی۔ کچھ دن شمشیر صاحب کے گھر گزارے۔ لیکن ذریعہ معاش کا کوئی انتظام نہ ہو سکا۔ آخر کار 'لیڈر پریس'
کی کینٹین میں برتن دھونے کا کام کرنے لگے۔ پلیٹ ٹوٹنے سے ناراض کینٹین کے مینیزر
نے آپ کو نوکری سے نکال دیا ۔ مایوسی کی حالت میں آپ الہ آباد کے فُٹ پاتھ کے قریب ایک گھر کے پاس رات میں ٹھہر گئے، مکان مالک نے آپ کو
چور سمجھ کر آپکی پٹائی کر دی اور پولس کے حوالہ کر دیا۔ پھر کچھ وقت بعد شیلیش
مٹیانی نے الہ آباد کو چھوڑ دیا۔
١٩٥٢ء
میں الہ آبا د ہائی کورٹ کے ایک وکیل ناتھُو رَام سِنگھل کے ساتھ مظفر
نگر چلے گئے ۔ یہاں آکر آپ نے سنگھل صاحب
کے گھر میں جھوٹے برتن ساف کئے، جھاڑو لگانے اور پیٹی کوٹ – بلاؤز دھونے کا کام کئی مہینوں تک کیا۔ مظفر نگر سے
شائع ہونے والا رسالہ 'نیا سَنسار' میں آپ کی ایک نظم شائع ہوئی۔ نیا سَنسار کے
ایڈیٹرنے پرُوف ریڈنگ اور نظم لکھنے کے لئےپچاس روپیہ ماہانہ طے کئے۔
کچھ ماہ بعد شیلیش مٹیانی مظفر نگر چھوڑ دہلی آگئے۔ لیکن کر
کچھ عرصہ رہنے کے بعد ممبئی کے لئے روانہ ہوئے۔ ممبئی پہنچنے پر آپ کا مال اسباب غائب ہو گیا۔ جس وجہ سےممبئی جیسے عظیم شہر میں لاچاری کے سبب فُٹ
پاتھ پر ہی گزر بسر کرنا پڑا۔فُت پاتھ پر پڑے چنے اور سوکھی روٹیوں کے ٹکڑوں کو
کھا کر آپ نے دن گزارے۔ ممبئی کے فُٹ پاتھ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں-
"۔۔۔ان فُٹ پاتھوں پر پَلنے، پَنپ
نے والے ۔ مزدوروں، بکھاریو، چور اچکّوں ، اُٹھائی گیروں اور غنڈوں نے مجھے جو ہمت
دی، جو سہارا دیا اور محنت کرتے ہوئے زندگی جینے کا جو نظریہ دیا، وہ ادیبوں کے
یہاں موجود نہیں ہوتا ہے۔"[5]
فُٹ پاتھ پر سونے کے جرم میں کئی
مرتبہ پولس نے گرفتار بھی کیا۔ پولس اسٹیشن
میں گرفتار افراد کے لئے کھانے کا انتظام کیا جاتا تھا۔ شیلیش مٹیانی نے جان کر اپنے آپ کو پولس کے حوالہ کرنا شروع
کر دیا تاکہ پولس ان کو گرفتار کر لے اور اسٹیشن
لے جائے تاکہ وہ اٹیشن میں ملنے
والے کھانے سے اپنی بھوکھ کو مٹا سکیں۔ کئی مہینے شیلیش مٹیانی نے
پولس اسٹیشنوں کے کھانے پر زندگی بسر کی۔
پھر انہیں معلوم ہوا کہ یہاں اپنا خون بیچ کر بھی پیسے کمائے جا ساکتے ہیں تو آپ
نے دس روپیہ میں ایک بوتل خون کے
حساب سے
کئی مہینو ں تک خون بیچ کر اپنا گزر بسر کیا۔[6]
زندگی کی اسی جد وجہد میں شیلیش مٹیانی نے کئی طرح سے اپنا
توازن برکرار رکھا اور زندگی کے سخت سے سخت حالاتوں میں بھی امید کی کرن جگائے رکھی۔ ١٩٥٣ ء ، شِری کرشن چاٹ ہاؤس میں آٹھ روپیہ ماہانہ پر صاف
صفائی اور جھوٹی پلیٹوں کو دھونے کے کام
کی ملازمت کر لی۔
اسی چاٹ ہاؤس میں ملازمت کے دوران آپ نے 'بُوری وَلی سے
بُری بندرتک'، 'کبوتر خانہ'، ' قصہ نَرمدا بین گنگو بائی' جیسے شاہکار ناول تخلیق
کئے۔ رسالہ 'دَھرم یُگ' مین آپ کی نظمیں شائع ہوتی رہیں۔
١٩٥٦ ء میں شیلیش مٹیانی
ممبئی سے اپنے آبائی زمین باڑے چھینا
لوٹ آئے۔ ١٩٥٧ ء میں آپ کی شادی ناَرائنی دیونی سے
ہوئی، جنہیں
شیلیش مٹیانی محبت سے 'نیلا' کہہ کر پکارتے تھے۔ ازدواجی زندگی
میں داخلہ کے ساتھ آپ پھر الہ آباد چلے آئے۔ لیکن یہاں بھی پہلے جیسا ہی سب کچھ تھا, کچھ نیا نہ تھا۔ روزگار اور ذریعہ
معاش کی تلاش میں دربدر کام کرتے رہے لیکن کوئی مستقل کام نہ بنا۔ کبھی کبھی فاقہ کی نوبت آ جاتی تھی۔
'شیلیش مٹیانی قلم کی آزادی کے سخت
حمایتی تھے۔ یہی وجہ رہی کہ شاعر شیو دَان سنگھ چوہان اور ترقی پسند تحریک کے سجاد
ظہیر کی دعوت پر آپ انکے رکن نہ بنے۔ ایسا نہیں تھا کہ یہ انکار صرف مارکسی
تنظیموں کے لئے تھا، بلکہ دایاں بازو تنظیموں
سے بھی انکار ہی تھا ، اِن تنظیموں کو مٹیانی جی 'گِروہ'
کہا کرتے تھے جو مصنف کی آزادی چھین لیتے ہیں۔مصنف کی انا کے سوال پر رسالہ
'دھرم یُگ' کے خلاف سپریم کورٹ تک مقدمہ
لڑے اور ہندوستان کے وزیر اعظم اٹل بہاری
باجپئی کوشاعر ماننے سے انکار کرتے ہوئے
سولہ صفحہ کا ایک خط لکھ دیتے ہیں '[7]
١٩٩٢ ءسے ١٩٦٥ ء تک شیلیش مٹیانی اپنی خوداری، ایمانداری اور صاف گوئی کے سبب تکلیف دہ زندگی کا سفر طے کرتے
رہے۔١٩٩٢ ء، آپ کے چھوٹے بیٹے کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ بیٹے
کی موت کے بعد آپ کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ آپ اپنی زندگی کے آخری
سالوں میں ہلدوانی میں رہے۔ اور ٢٤ اپریل ٢٠٠١ء کو دہلی کے ایک اسپتال میں جدید ہندی ادب کا ایک نایاب گوہر اس فانی دنیا کو خیرباد کہہ گیا
۔
شیلیش مٹیانی نے اپنی ٥١ سال
کی تکلیف دہ اور بے آرام زنداگی، بے رحم
زمانے کے حالاتوں کو اپنی کئی
کہانیوں میں پیش کیا ہے۔ زمینی زندگی کی
تلخ حقیقت اور سماج کی کڑوی سچائی کو اپنے ناولوں میں بیان کیا ہے۔ اور شیلیش
مٹیانی کی بے باکی، خوداری اور ایمانداری
کو آپ کے خطوط و مضموں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
آپ کے کہانی مجموعے
میں-میری تینتیس کہانیاں(١٩٦١)، دو دکھوں کا ایک سکھ(١٩٦٦) ، دوسروں کے لئے (١٩٦٧)، سُہاگنی (١٩٦٨) ، سفر پر جانے سے پہلے (١٩٦٩)، ہارا ہوا (١٩٧٠)، اَتیت و دیگر کہانیاں (١٩٧٢)، میری پریئے کہانیاں (١٩٧٢)، پاپ مکتی و دیگر کہانیاں (١٩٧٣)، ہتھیارے (١٩٧٣)، برف کی چٹانیں ( ١٩٧٤)، جنگل میں منگل(١٩٧٤)، مہا بھوج (١٩٧٥)، چیل (١٩٧٦)، پیاس اور پتھر (١٩٨٢)، ناچ جمورے ناچ (١٩٨٩)، ماتا و دیگر کہانیاں (١٩٩٣)، 'بھیڑئے'، 'بھَویشیئے' اور 'اہَنسا'
شامل ہیں۔
ناولوں میں - بوریوالی سے بوری بندر تک (١٩٥٩)، کبوتر کھانہ (١٩٦٠)، ھُولدار (١٩٦١)،
چَھترسین(١٩٦١)، تِرییا بھلی نہ کاٹھ کی(١٩٦١)، قصہ نَرمدا بین گنگو بائی (١٩٦١)، چُوتھی چِٹھی (١٩٦١)، بارود اور باچلی (١٩٦٢)، مکُھ سَویرا کے ہنس (١٩٦٢)، ایک موٹھ سرسو (١٩٦٢)، بیلا ہوئی اَبیر (١٩٦٢)، کوئی اجنبی نہیں (١٩٦٦)، دو بوند جل (١٩٦٦)، بھاگے ہوئے لوگ (١٩٦٦)، پُنر جنم کے بعد (١٩٧٠)، جل تَرنگ (١٩٧٣)، برف گر چکنے کے بعد (١٩٧٥)، اُگتے سورج کی کرن (١٩٧٦)، چھوٹے چھوٹے پَکشی (١٩٧٧)، رام کلی (١٩٧٨)، سرَپ گندھا (١٩٧٩)، آکاش کتنا اننت ہے (١٩٧٩)، اُتّرکانڈ (١٩٨٠)، ساوِتری (١٩٨٠)، گوپلی غفورن (١٩٨١)، باون ندیوں کا سنگم (١٩٨١)، اَردھ کُمبھ کی یاترا (١٩٨٣)، مٹُھ بَھیڑ (١٩٨٣)، ناگ وَلّری (١٩٨٥)، مایا سَروُوَر (١٩٨٧)، چند عورتوں کا شہر (١٩٩٢) قابل ذکر ہیں۔
شیلیش مٹیانی نے کئی مضمون بھی لکھے،
جن میں –
'کبھی-کبھار'،'کاغذ کی ناو'، 'جنتا اور
ساہتیہ'،'مکھئہ دھارا کا سوال'۔'ترجیا'،'راشتر بھاشا کا سوال'،'لیکھک کی
سنویدنا'،'یدا-کدا'،'یتھا پرسنگ'،'کس کے رام،کیسے رام'،'راشٹر کی چنوتیاں'،'کسے
پتہ ہے راشٹریہ شرم کا مطلب'،'کہانی کیسے بنتی ہے'،'لیکھک کا کام کیا ہے'،'راجئہ
اور قانون'،'بھاشا اور دیش'،'دیش کی بھاشا اور انڈیا ٹوڈے'،'رچنا پاٹھ اور آلوچنا'،'ہمارے
راشٹر گان کی وڈمبنا' وغیرہ اہم مضمون شائع ہوئے۔
ادب اطفال کے حوالہ سے شیلیش مٹیانی نے بچوں کے لئے کئی
کہانیاں تخلیق کی -
'سِندھو اور گَنگا'،'اپنی-اپنی پرَم پَرا'،'چوہیا
کا دولھا'،'چاندی کا روپیہ اور رانی گُوریہ'، 'تین رنگ کی کتھا'،'پھولوں کی نگری'،'صبح کے
سورج'،'چھوٹی مچھلی بڑی مچھلی' وغیرہ کہانیاں ادب اطفال میں اہم مقام رکھتی ہیں۔
'کھانسی کو پھانسی' ،'ماسٹر کا
چناؤ'،'موت کا سامان'،'گاوں کا پوسٹ میئن '،'
اَجب کتھا بنَواری'،'دور کے ڈُھول'،' گُرو جی کی کاشی یاتَرا یُوجنا'،'بس فرق
اتنا ہے'جیسے ڈرامہ تخلیق کئے۔
شیلیش مٹیانی نے دو
رسالے بھی جاری کئے۔ ایک 'وِکلپ ١٩٦٧ ء میں جاری کیا ۔ جس میں اُس وقت کے ہندی ادیبوں کی
تحریروں کو ١٩٧٥ ء تک سلسلہ وار شائع کیا جاتا رہا۔
دوسرا رسالہ ١٩٧٧ ء میں 'جَن پَکش' نامی جاری کیا۔ لوک
ادب کے حوالہ سے شیلیش مٹیانی نے اُتراکھنڈ کی لوک کتھاوں کو تحریر کر شائع کیا جس
میں – 'کماؤں کی لوک کتھائیں'،'بارہ منڈل کی لوک کتھائیں'،'اَلمُوڑا کی لوک
کتھائیں'، 'چَمپاوَت کی لوک کتھائیں'تَرائی پَردیش کی لوک کتھائیں'،'ڈُوٹِی پَردیش
کی لوک کتھائیں' اور نینی تال کی لوک کتھائیں شامل ہیں۔
شیلیش مٹیانی نےاپنی شاعری ابتدا ١٩٤٨ء میں شروع کر دی
تھی۔ آپ نے کئی نظمیں لکھیں، لیکن وہ اس وقت
شائع نہ ہو سکیں۔ ایک شاعر کی حیثیت سے آپ کی اوّل نظم 'شتِھل ہے سَادھنا'
کو مانا جاتا ہے جو کہ کماؤنی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس کے علاوہ 'وِرَکش'۔'پانچ مُکتک'،'تین ُمکتک'۔'چاک پر گھومتا پانی'
،'نیا اتہاس'اور 'بھارت کا جئے گان' آپ کی
مشہور نظمیں ہیں جو کہ 'دَھرم یُگ'۔'سَرسوتی'، 'نئی دَھارا' وغیرہ رسائل و جرائد میں
چھپتی رہیں۔
شیلیش مٹیانی کو ہندوستان کے کئی بڑے انعام و اعزازسے نوازا گیا جس میں خصوصی طور پر –
· ١٩٦٠ ء حکومت اُترپَردیش کی جانب سے آپ کے
پہلے ناول 'بُوریوَالی سے بُوری بَندر تک' کے لئے
تین سو روپیہ انعام سے نوازا گیا۔
· 'ہندی
ساہتیہ سَنستھا اتر پردیش'کی طرف سے کہانی 'مہا بھوج' کے لئے 'پریم چند' ایوارڈ اور پانچ سو روپیہ دئے گئے۔
· ١٩٧٤ ء میں حکومت اتر پردیش کی طرف سے پانچ سو روپیہ کا
انعام دیا گیا۔
· ١٩٨٣ ء میں 'فنیشورناتھ رینو' انعام حکومت
بہار کی جانب سے دیا گیا۔
·
١٩٩٤ ء میں کماؤں یونی ورسٹی نینی تال نے ڈی۔لِٹ کی اعزازی
ڈگری سے نوازا۔
· ١٩٩٩ء
اتر پردیش ہندی سَنستھا کی طرف سے 'لوہیہ' انعام دیا گیا۔
·
٢٠٠٠ ء میں سنٹرل ہندی سنستھا نے'راہُل سَانکرتیان ایوارڈ سے نوازا۔
· ٢٠٠٠ ء میں 'ہلدوانی ناگِرک سَّمان تنظیم ' نے 'ناگرک سمَّان سے نوازا۔
حکومت اُتراکھنڈ کی
طرف سے شیلیش مٹیانی کے نام سے ریاستی اساتذہ
انعام سمَّان
،اُترکھنڈ کے اساتذہ کو شیلیش مٹیانی سمَّان عطا کیا جاتا ہے۔
[1] میری
پرئے کہانیاں، شیلیش مٹیانی
[2] تِرجَّیا، شیلیش مٹیانی
[3] تِرجَّیا، شیلیش مٹیانی
[4] جَن کتھاکار، شیلیش مٹیانی
[5] میری
تینتیس کہانیاں، شیلیش مٹیانی
[6] شیلیش
مٹیانی کا اپنیاس: ایک اَنوشیلتا، لیجا .پی. جے، کوچین یونی ورسٹی
[7] سنگھرش ہی جنکی کتھا
رہی، شیلیش مٹیانی، مضمون نگار-اروند کمار
مورئے، ریسرچ اسکولر،
کماؤں یونی ورسٹی، نینی تال۔
0 टिप्पणियाँ