ہندی کہانی- ہارا ہوا
مصنف- شیلیش مٹیانی
مترجم- فرید احمد
آس پاس کھڑی ہوئی عورتوں مردوں کی موجودگی میں ہی گنڈامل نے اپنی چارخانی لنگی
اتار کر پھینک دی اور گہرے لال رنگ کے لنگوٹ کے اگلےسرے کو ناگ پھنی کے پتے کی طرح
پھیلالیا تو چاروں طرف سنسنی پھیل گئی۔
یہ خبر توپہلے ہی پھیل چلی تھی کہ دُکھہَرن موچی نے گنُڈا مل پہوان کے خاص چیلے دُلّی چند کے منھ پر یہ
کہہ دیا تھا کہ -کہہ دینا اپنے باپ گنڈامل سے، آگے سے میرے گھرکی طرف منھ کیا تو
اس کی بے حیا آنکھوں کو کھینچ کر باہر نکال دوں گا ا اور زبان میں ٹھونک دوں گا
جوتے کی نعل! پتہ چل جائےگا حرام زادے کوکہ دُکھہَرنا کی بیٹی کو بُری نظر سے دیکھناکیا ہوتا ہے؟
ساری بستی میں سنسنی پھیلی ہوئی تھی کہ اب دکھہرن موچی کی نہ جانے کیا حالت
کرے گا گنڈا مل پہلوان۔ بستی کی عورتوں مردوں کا جوریلا گنڈامل کے اِردگرد اکٹھا
ہوا تھا، ان میں سے سبھی کی آنکھوں میں چٹگ لال رنگ کے لنگوٹ کواپنی جانگوں کے بیچ
اینٹھ- اینٹھ کر کستے ہوئے گنڈامل پہلوان کے ساتھ ہی ساتھ دکھہرن موچی کی صورت بھی
صاف ابھر رہی تھی۔
دکھہرن موچی وہاں موجودنہیں تھا، مگر لوگوں کو لگ رہا ، تھا کہ غصے سے
بوکھلائے جنگلی گینڈے کی طرح بپھر-بپھر کرلنگوٹ کو کھولتے کستے ہوئے گنڈامل
پلوان کے آس پاس ہی کہیں دکھہرنا ضرور کھڑا ہے۔ ہر وقت پانی چوتے رہنے سے مچمچاتی
اور گڈّوں میں دھنسی ہوئی آنکھیں اور نہ جانے سر کی کمزوری کی وجہ سے یا کہ اپنی
زندگی کے لئے خاص للک کی وجہ سے لگاتار ناک سے رستی رینٹ اور پَر اُتارے ہوئے بیار
مرغے جیسا جھلی دارجسم۔ لوگوں کو لگ رہا تھا کہ اگر خوفناک ہونے میں گنڈامل کا کوئی ثانی نہیں ہے تو قابل رحم
ہونے میں دکھہرن موچی بھی پوری بستی میں اپنی نسل کا اکیلا ہی ہے۔ اور اسی وجہ سے
لوگوں کو گندامل پہلوان کے اپنی ہی جگہ کھڑے ہو کر پینترے بازی کرنے کی بات کچھ عجیب
سی لگ رہی تھی۔ عجیب ہی نہیں غیر یقینی بھی۔
لوگوں کے خیال کے مطابق اب تک تو دکھہرن موچی کی کمزور گردن پرکڑ کر مروڑ بھی چکا ہوتا گنڈامل
پہلوان۔ دکھہرن موچی سے قابل رحم اور بغیر سہارے کے آدمی سے اپنی بے عزتی کا بد لہ
چکانےکے لئے گنڈا مل پہلوان کا یوں پینترا بازی کرنا چائے، کہ بہت تگڑے جوڑ کے
پہلوانے نبٹتا ہو۔ لوگوں کو یہ سب کچھ ایک دم حیرت ناک سالگ رہا تھا۔ حیران کن اور
غیبی۔
خودگنڈامل پہلوان کی حالت بھی عجیب تھی۔
لگاتارسول سترہ برسوں سے جس کی بستی میں
وہ رہا تھاکئی جگہ کئی بار اسے دوسرے پہلوانوں اور گنڈوں کی چنوتیوں سے بھی نپٹنا
پڑا۔ مگرایسا موقع پہلی بار ہی اُس کی زندگی میں آیا تھا، جب کہ گنڈامل سید ھے آگے
بڑھکر ٹکرا جانے کے بجائے اپنے ہی پاؤں پر کھڑا-کھڑا سینگوں سے زمین کھودتے سانڈ کی
طرح صرف پینترے بازی کرتا رہ گیا ہو۔
دکھہرن موچی جیسا ہر طرح سے گیا گزرا آدمی اور گنڈامل پہلوان ۔ بھیڑ تواسے اوربھی
ہے قابو بناڈالتی ہے اورپھر وہ ایسا کچھ بھی نہیں کر پاتا جو وہ خود کرنا چاہتا
ہے۔ تب وہ اس کام کو کرنے کے لیے مجبور ہوجاتا ہے جوبھیڑاجتماعی طور پر اس سے
کروانا چاہتی ہے۔ اپنے ہی ارادے کے آگے کمزور پڑے ہوئے آدمی پر بھیڑ اپنے ارادوں
کو تھوپتی چلی جاتی ہے، اس بات کا گنڈا مل پہلوان کو پہلی بار احساس ہوا۔ وہ اس
بات کو سمجھ گیا تھا کہ بھلے ہی وہ ارادے کی کمزوری کا شکار ہے لیکن اس کے پیٹھ پیچھے
چھپی ہوئی بھیڑ اپنا فیصلہ کر چکی ہے۔
اس فیصلے پر شاید بھیڑ شروع میں ہی پہنچ چکی تھی کہ اب گنڈا مل پہلوان دکھہران
موچی کی گردن مروڑ دے گا اور مار مار کر اس کا کچومر نکال دے گا اور اس کے سامنے
اس کی بیوہ بیٹی کِیلا سَو کو پکڑ کر اس کی عصمت پر ہاتھ ڈال کر اپنی بے عزتی کا
بدلہ لے لیگا۔ اور جب تک ایسا کر نہیں ڈالے گا تب تک بھیڑ کی آنکھوں میں بسی ہوئی
پیاس نہیں بجھے گی۔ بھیڑ کا پہلا فیصلہ آخری کبھی ہو تا ہے۔
دکھہرن موچی کی چُھوپڑی بستی کے آخری سِرے پر تھی۔ لیکن جہاں سے گنڈا پہلوان
آگے بڑھا وہاں سے بالکل آنکھوں کی سیدھ میں۔
گنڈامل پہلوان چاہتا تھا کہ اِس وقت وہ سیدھے دکھہرن موچی کے چھوپڑے کی طرت نہ جا کر،
کہیں سنّاٹے کی طر ف چلا جائے۔ مغرب کی طرف
پڑنے والے بڑے تالاب اور اس کے کنارے کا بڑا پیپل کا درخت اسے یاد آرہا تھا ۔ وہ
چاہتا تھا ، گھنٹے، دو گھنٹے کے لئے وہ اِیسی کےنیچے اپنی چار خانی تہمدبچھا کر
لیٹ جائے۔ اوراپنے یکایک اُمڑ آئے ماضی کو پرسکون ذہن کے ساتھ ٹٹول کر دیکھے، جس نے اسے دکھہرن موچی کے مقابلے
میں کمزور بنا کر چھوڑ دیا ہے۔مگر پیچھے مڑ کر نہ دیکھتے ہوئے بھی اسے لگ رہا تھا
کہ بھیڑ بھلے ہی پیچھے چھوٹ گئی ہے مگر بھیڑ میں سے ہر عورت اور مرد کی آنکھ باہر
نکل کراُسی کی پیٹھ پرٹکی ہوئی ہیں۔
کبھی -کبھی اپنی شہرت اور عظمت کی حالت خوداپنےلئے کتنی خطرناک بن جاتی ہے ،اور
اپنی ہی نظرمیں خود کو کتنا بے سہارا اور کمزور بنا دیتی ہےیہ سوچ کر گنڈامل پہلوان
کی آنکھوںمیں تھوڑی سی نَمی پھیل گئی۔ وہ
اپنی آنکھوں کو پونچھ لینا چاہتا تھا تاکہ کہیں دکھہرموچی کے سامنے آنسوں نہ نکل پڑیں،
مگر اُسے لگا، اس وقت وہ زرا سا بھی رکا اور آنکھیں پوچھنے لگا، توبھیڑ کی آنکھوں
میں اور بھی زیادہ شک پیدا ہوجائیگا اور لوگ اسکےاور زیادہ قریب پہنچ جائیں گے۔
لگاتار سولہ سترہ سالو ں میں اپنی جسمانی طاقت اور خونخوار فطرت کی وجہ سے خود گنڈا ملی
پہلوان نے اپنی شخصیت ایسی بنا لی ہے کہ آس پاس کے علا قوں میں اس کے نام کاخوف
پھیلا ہوا ہے ۔ اس کا شاگرد کہلانے میں نئی توانائی والے پہلوان فخر سے اپنا سینہ
پھلا لیتے ہیں۔ جس بستی کوکانگریس سرکار
نے مہاجروں کے لئے بسا کر نام رکھ دیا
تھا وہ بستی، بستی گنڈامل کے نام سےزیادہ
جانی جاتی ہے۔ اور اپنے دلیر شاگردوں کی مدد سے گنڈامل نےہر آڑے آنے والے کو شکست دی ہے۔ جس عورت پرنظر پڑ
گئی اس کوبازوں میں باندھ کر ہی دم لیا۔ آج پینتالیس چھیالیس سال کی عمری میں بھی جسم پرکہیں بھی تیل کا ہاتھ ٹھہرنہیں سکتا تھا۔
یہی بنارسی جُگل پَنواڑی ،پچھلے سال بستی
میں آیاتھا تو اپنی ساڑھے تین اِنچ کی
موچوں کو ایسےمروڑتا پھرتا تھا، جیسے گنڈا مل پہلوان کی اُس کے لئے کوئی اہمیت ہی
نہ ہو۔بنارس کے بَجرنگ بلی کے اکھاڑے کا
نکلا ہوا پٹھا تھا، گندامل پہلوان کے بھینسے جیسے جسم کو دیکھ کر ہنس پڑتا
تھاکہ تو ہی ہے گنڈا مل پہلواب صاحب؟
تب جُگل پہلوان کوپتہ نہیں تھا کہ گنڈامل پہلون نےاپنا سکہ صرف اس جسمانی طاقت
کی بدولت ہی نہیں جما رکھی ہے۔کُشتی میں باہر جانے پراکھڑے سے ہٹ جانے کی حالت تو
آ سکتی ہے، مگر کسی سے دشمنی کے اکھاڑے میں وہ جان لیکر ہی پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ اورہو
بھی یوں کہ لاش کا بھی پتہ نہ چلا ،دفن
کہاں ہوئی۔
پہلے سال کی ہی بات ہے گنڈال مل پہلوان کے لئے پان لگاتے ہوئےجُگل پنواڑی نے چھیڑ دیا تھا، کیو
پہلوان ؟ تمہارے ذرا چونا زیادہ لگا دیں تو کیسا رہے گا ؟
اورصرت اتنی سی بات پر کا گندا مل پہلوان نے چونا لگانے کی ڈنڈی پوری کی پوری جگل
پنواڑی کے منہ میں گھسیڑ دی تھی اور جب تک
جگل پنواڑی کچھ سمجھے
گُدی پیچھے گِرا کر ، اس کی ساڑھے تین
انچی مونچھوں کو اپنے رام پوری جوتوں کی نوک کے نیچے دبا دیا تھا۔ اور آج وہی جگل
پنواڑی دیکھتا رہا ہے کوگنڈامل پہلوان دکھہرن موچی جیسے گئے گزرے سے بدلہ لینے کے
لیے کتنی پینترے بازی کر رہا ہے۔
گنڈا مل پہلوان کو لگا ۔اسکی ننگی پیٹھ پر جگل پنوڑی کی لمبی مونچھوں کی نوک
چھیتی چلی جارہی ہے۔ چونک کر اس نےپیچھے کی طرف دیکھاتو پایا کہ بہت پیچھے چھٹے ہوئے لوگ آگے بڑھتے -بڑھتےاب اس کے تھوڑے ہی
فاصلے پر رہ گئے ہیں اور اگر وہ تیزی سے دکھہرن موچی کے جھونپڑے کی طر نہیں بڑھا
تو پھر راستے میں ہی گھیر کرکھڑے ہو جائیں گے۔
گنڈامل نے محسوس کی کہ اگر وہ گنڈامل پہلوان کی شکل میں مشہور نہ ہوکر دکھہرن
موچی کی طرح گیاگزرا ہوتاتو اسے یوں بھیڑ
سے گزرنا نہیں پڑتا۔ اسی ذہنی حالت سے چھٹکارا پانے کے لئے وہ تیزی سے آگے ہونے کی
کوشش کرنے لگا ،تو اسے لگا اس کے بھاری جسم کا سارا کا سارا وزن پاؤں کی نسوں میں
پر اُتر آیا ہے اور جلدی -جلدی چل پانے میں وہ نا کامیاب ہے۔
اپنے بھاری بھرکم جسم کے پیچھے آتی ہوئی بھیڑ اسے ایسی لگی جیسے گدھوں کا جُھنڈ
کسیمُردہ ڈھور کے پیچھے اُڑتا چلا جا رہا
ہو۔
گنڈامل پہلوان کی خواہش ہوئی نالے کی طرف چلا جائے اور وہاں کچھ تک آرام کر کے
واپس لو ٹے تو دکھہرن موچی اور اس کی بیٹی
کِیلاسَو، دونوں کو جان سے مار
دینے کی دھمکیاں بھیڑ کے سامنے دے ۔ ایسے میں شایدبھیڑ میں ایسے لوگ بھی نکل آئیں گے ہاتھ جوڑتے ہوئے یہ
کہہ دیں کہ وہ دکھہرن موچی اور اس کی بیوہ بیٹی پررحم کرے۔ اور دکھہر ن موچی اور
کیلاسو سے معافی مانگنے کو کہہ دیں اور گنڈامل پہلوان -جا،بڈھا سمجھ کر – معاف
کیا! کہہ کر آزاد ہوجائے۔
اس سوچ سےگنڈا مل پہلوان کو سہاراملا،
اور نالے کی طرف جانے کی بات بھول گیا۔
کچھ تمتمایا ہواسا ، وہ بھیڑ کے انتظارمیں رک گیا ۔ جوں ہی جُگل پنواڑی کے آگے -آگے
چلتا ہوادُلّی چند پہلوان نظر آیا، وہ زور سے چلا کرپہلوان کے منھ پر نعل ٹھوک دینے
اور حَلقے سے آنکھیں باہر کھینچ لینے کی بات کرے ۔ اور گنڈامل پہلوان بڑی دیریوں
ہی اپنی جگہ پرکھڑے صرف چار خانے کی لنگی کو اتارتا اور لال لنگوٹ کو کھولتا -کستارہ
جائے۔ یہ حالت جتنی آس پاس اکٹھا ہو کے لوگوں کے لئے عجیب تھی اس سے کہیں زیادہ
خورگنڈامل پہلوان کے لئے۔
اس بار لنگوٹ کے پچھلے سرے کو کسکر نیچے دباتے ہوئے، سر کو ٹانگوں کے بیچ میں جُھکائے- جُھکائے ہی گنڈا مل پہلوان کئی
باتیئں سوچ گیا۔
پہلے تو وہ یہی سوچ رہا تھا کہ دکھہرن
موچی جیسے قابل رحم آدمی کی طرف سے اتنی بڑی چنوتی آنے کا موقع چوں کہ اس کی زندگی
میں پہلی بار آیا ہے ، اسی سے وہ کشمکش اورٹھیک- ٹھیک طے کر پانے کی حالت میں پھنس
گیا ہے۔ اس بار اس نے محسوس کیا، اگر طے نہ کرپانے کی یہ ہی حالت رہی ہوتی تو اسے
نبٹانے کے لیے وہ تیزی سے دکھہرن موچی کی جھونپڑی تک پہنچ سکتا تھا اور اس کی
آنکھوں کے سامنے اس کی بیوہ بیٹی کِیلا سَو کی عصمت لوٹ سکتا تھا تاکہ گنڈا مل پہلوان
سے اُلجھ نے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے وہ جان سکے ۔لیکن اُسے اندر ہی اندر محسوس ہورہا
تھا، کہ بالکل اندر کی سطے پر ساری حالت طے پاچکی ہے۔ کوئی ایسا فیصلہ ہے جو بالکل
ناممکن طریقے سے اس کے شعور پرکُنڈلی مار کر بیٹھ گیا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ
وہ جب بھی حملہ آور ہونے کی کوشش کرنا چاہتا ہے صرف اپنی ہی جگہ پرسُکڑ کر رہ جاتا ہے۔ اس کا جنگلی گینڈے جیساخوں
خوار جسم ہم اپنی جگہ پرساکت سا ہوگیا ہے۔
اسے لگا ، دکھہرن موچی کی طرف سے آنے والی چنوتی اس کی زندگی میں پہلی -پہلی
بار نہیں آئی ہے۔ بلکہ یہ کسی بہت پہلے آچکی چنوتی کی یاد دہانی ہے جسے گنڈامل
پہلوان تب سہہ نہیں سکا ہوگا اور اپنے ہی پیروں پر کھڑا اِسی طرح زمین کھودتا رہ
گیا ہوگا۔
لنگوٹ کا پچھلا حصہ کستے -کستے گندڈ مل پہلوان کی انگلیوں کے سروں میں آبلے سے
پڑنے لگے تھے۔ اور وہ چاه رہا تھا کہ جب وہ ٹانگوں کے بیچ سے سراٹھاکر اپنے چاروں
طرف دیکھے توا سے دور- دور تک کوئی کبھی آدمی یا عورت نظر نہیں آئے۔ ایک سرے پر
اکیلا وہ کھڑا ہو اور دو سرے پر بالکل اکیلی کھڑی ہودکھہرن موچی کی چنوتی۔ اس کی
بیوہ بیٹی کیلاسوــــــ تاکہ وہ اپنے اندرہ گڑئے ہوئے مضبوط
کھونٹے کو ٹھیک سے ٹٹول سکے،جس کی وجہ سے اس کا جنگلی گینڈے جیسا جسم اپنے ہی پاوں
پرکھڑے -کھڑے اپنے ہی وجود کو روندنے کے علاوہ اور کچھ بھی کر پانے میں نا کامیاب
ہو گیا ہے۔
سراٹھاتے ہی گنڈامل پہلوان نے دیکھا،اس کے آس-پاس تماشائی لوگوں کی بھیڑاور زیادہ ہوگئی ہے۔ اتنا ہی نہیں خبر
پھیلتے -پھیلتے اس کے سارے شاگرد بھی وہاں جمع ہو گئے ہیں اور ہاتھ میں لاٹھی پکڑے-
پکڑے اس طرح کھڑے جیسے اِسی انتظار میں کھڑے ہوں کہ استادگنڈامل حکم دیں تو سید سے جاکردکھہرن
موچی پر ٹوٹ پڑیں۔
گنڈامل پہلوان نے ایک بار پوری آنکھیں کھول کر اپنے آس پاس کھڑی ہوئی بھیڑ کو
دیکھا۔ سہمی-سہمی آنکھوں میں تجسّس اور گود میں بکریوں کے جیسےتھن جھنجھوڑتے ہوئے
بچوں کو لئے عورتوں کو دیکھ کر اسےاُبکائی سی آنے لگی۔ ڈھیرسارے مردوں کے چہروں کو
اپنی کشمکش کی حالت کولیکر پر تجّسس سمٹی پھیلتی ہوئی جھیلوں کو دیکھ کر اسے ایسا لگا جیسے کسی ایسے
تالاب کو دیکھ رہا ہوں جس میں کیچڑ ہی کیچڑ بھرا ہوا ہو اورمینڈکوں کا جھنڈ کھُد بُدا رہا ہو۔
ایسے موقعوں پر لوگوں کے چہرے کتنے بے رحم اور ننگے ہوجاتے ہیں؟ ان تمام لوگوں
کے لئے نفرت کو محسوس کرتے ہوئے گنڈامل پہلوان نے ایک نظر اپنےپیچھے کھڑے شاگردوں
پربھی ڈالی اور پھرــــــپھراسے لگا اس کی نظر کہیں اس جھونپڑی تک بھی پہنچ رہی ہے جہاں کٹنی اور
چمرودھا ہاتھ میں لیے بالکل اکیلا دکھہرن موچی کھڑا ہےــــــ اور اس کے پیچھے کھڑی ہے صرف اس کی چنوتی
ــــکہہ دینا گنڈامل پہلوان سے کٹنی سے سسرےکی
آنکھ باہر نکال لونگا؟
ایک طرف با لکل اکیلا دکھہرن موچی اور اس کی پیٹھ کے پیچھے کھڑی صرف اس کی
اپنی ہی چنوتی۔ سال بھر کے بچے کو گود میں لئے بیوہ کیلاسو ۔ اور دوسری طرف گنڈا
مل پہلوان ، اس کے خونخوار شاگرداور پچاسیوں عورتوں۔ مردوں کا ریلا!
گنڈامل پہلوان کو لگا کہ دکھہرن موچی کے مقابلے میں کہیں اس کا پلڑا بہت ہلکا
پڑ گیا ہے اور صرف اس کی مدد کے لئے تماشا نی عورتوں- مردوں کا اور شاگردوں کا
اتنا بڑے مجمع چلا آیا ہے۔
یکایک گنڈامل پہلوان تیزی سے شاگردوں کی طرف پلٹ پڑا۔ " کیوں ر ے چغدوں ؟
اکھاڑا لگ رہا ہے یہاں پر،جو سسرے لٹھیٹ بنے کھڑے ہو گئے ہو؟ جس سے نپٹنا ہو گاگنڈامل
اکیے نبٹ لیگا۔ تم تماش بینوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔"
جلدی میں شاگر دوں یا کسی دوسرے کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا مگر جُگل پنواڑی
کی ہلتی ہوئی مونچھوں کوگنڈامل پہلوان نے دیکھ لیا ۔ اسے لگا اپنے سے اپنا نام
لیتے ہوئے آج پہلی بار صرف گنڈال مل ہی اس کے منھ سے نکل پایا تھا گنڈا مل پہلوان
نہیں۔
اسے یہ بھی لگا، جس طرح ساری باتیں دکھہرن
موچی کو بچا کر اس نے کہی ہیں، اس سے صرف
جگل پنواڑی کی ہی نہیں بلکہ دو سرےلوگوں کی آنکھوں میں بھی تجسّس اُمڑ آیا ہے۔
اپنی کش مکش کی وجہ سے وہ لوگوں کی نظروں
میں وہ دکھہرن موچی سے ہار تا چلا جا رہا
ہے۔ ایسا محسوس ہوتے ہی گنڈامل پہلوان پھر بے قابو ہونے لگا۔ پہلے اس نے زور -زور
سے دکھہرن موچی کوگندی-گندی گالیاں دیں۔ پھرکیلا سوسے اپنے ناجائز رشتے قائم کئےاور
پھر دل ہی دل میں جگل پنواڑی اور ساری بھیڑ کو گندی- گندی گالیاں دیتے ہوئے اس نے پرے پھینکی ہوئی اپنی
چار خانے کی لنگی اُٹھاکر کندھے پر ڈال لی۔
بھیڑ سے باہر نکلتے ہوئے،گنڈامل پہلوان نے زندگی میں پہلی بار یہ جاناکہ جو
آدمی خود اپنے ہی اندر سے کمزور پڑ جاتا ہے اسے مدد گاروں کی بھیڑ اور بھی زیادہ
کمزور بنا دیتی ہے۔
اسے لگا، اندر ہی اندر کمزور اورکش مکش میں پڑےآدمی کو تنہائی ہی سہارا دے سکتی ہے بھیڑ
نہیں۔بولا- "د ُلّی چند ! آگے سے اپنی برادری کی استادی کو خود سنبھال الينابیٹا
! میں نے تو آج دونوں سسروں کو قتل کر
دینا ہے۔"
گنڈامل پہلوان کہنا صرف اتنا ہی چاہتا تھا تاکہ دُلّی چند آگے بڑھ کہ اس کے
سامنے ہاتھ جوڑنے لگے کہ استاد اتنا بڑا خطرہ اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حکم
ہو تو میں دکھیرن موچی اور اس کی بیٹی کیلا سو کو آپ کے نیچےلیٹاکہ دِکھلا سکتا ہوں۔ مگر ضرورت زرا
ٹھنڈے دماغ سےکام لینے کی ہے"ـــــمگر جگل پنواڑی کو دیکھتے- دیکھتے اتنا اور بھی گنڈامل
پہلوان کے منھ سے نکل پڑا ۔" اور جو کوئی سسرا بیچ میں پڑنےکی کوشش کریگا اس
کی کبھی ٹانگ 'چر' سے چیر کر الگ رکھ دوں گا۔
چیر کر د کھ دوں گا ، کہتے -کہتے گنڈا مل پہلوان نے اپنی چار خانے کی لنگی کوچیر
کر دو ٹکڑےکر لئے ۔ اور پھر خود ہی اس نے یہ بھی محسوس کر لیا کہ اپنے غصے میں
لوگوں کے بیچ بچاؤ کرنے کے لئے آنے کی بات کو بھی ختم کر دیا ہے۔
گنڈا مل پہلوان نے دیکھا ، دُلی چند پہلوان
سہم کر اپنی ہی جگہ پرکھڑارہ گیا ہے اور اس کےپیچھے آتی ہوئی بھیڑ بھی تھم
گئی ہے۔ اپنے آپ پر جھنجھلاتے ہوئے گنڈامل پہلوان اس بار تیزی سے دکھہرن
موچی کے جھونپڑے کی طرف بڑھ گیا۔
اس نے طے کرلیا کہ اس طرح کی ذہنی پریشانی سے باہر آنے کاراستہ صرف اس کے پاس اب ہی رہ گیا ہے کہ دکھہرن موچی اورکیلا
سو کو جان سے بھلے ہی نہ مارے مگر پیٹے ضرور۔
گنڈا مل پہلوان نے اپنا نُوکدار
رامپوری جوتا نکال کر ہاتھ میں لے لیا تبھی اُسے اچانک یاد آیا کہ آج سے سترہ برس
پہلے بھی اس نے اسی طرح اپنا پیشاوری جوتا پائوں سے نکالا تھا اور .... اپنے منھ
پر دے ما راتها۔
اس بار وہ ماضی بالکل صاف-صاف گنڈامل پہلوان کی آنکھوں کے سامنے نظر آ گیا۔جس کے یکایک کہیں لاشعور میں آجانےسے ہی گنڈ امل
پہلوان شک میں پڑ گیا تھا۔
زمین کا ایک بہت بڑا ٹکڑا ہے ، جو گنڈال مل پہلوان کے ہندوستان پہنچنےسے بھی بہت پہلے پاکستان میں چھوٹ گیا ہےــــــ اور بہت بڑے خاندان میں سے باقی رہ گئے ہیں صرت
اٹھائیں سال کے گنڈامل پہلوان اور اس کی آٹھ نو سال کی لڑکی کی کَنولی۔
خون اور وحشی لوگوں کا ایک بڑا جھنڈ اپنی زمین کے آخری تکڑےکو توڑنے کی کوششں میں
تیزی سے بھاگتے ہوئے گنڈامل پہلوان کو گھیر لیتا ہے۔ پیشاور، لاہور اور راولپناڈی
کے اکھاڑے کے بڑے بڑے رستوں کو اُکھاڑ پھینکنے والا گنڈ امل ان کی خونی آنکھوں کو جھیل
نہیں پاتا ہے۔ خوف سے اس کی آنکھیں چُندھیاجاتی ہیں۔ وحشیوں کا جُھنڈ اس کے پہلوانی
جسم کو حقارت بھری آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کی چُندھیائی ہوئی آنکھوں کے سامے
ہی پھول جیسی بچی کَنولی کو پکڑ لیتا ہے۔ اورعصمت جیسی چیز کی
خبر ہونے سے بھی پہلے ہی کَنولی کی عصمت لُٹ
جاتی ہے اور گنڈامل پہلوان اُن گنڈوں کے چہروں کی چمک سے چُندھیا یا سا ایک طرف
کھڑا رہ جاتا ہے۔
پھر سامنے ایک دم اکیلی. دم توڑتی ہوئی
کَنولی چھوٹ جاتی ہے اور ایکدم اکیلاگنڈا مل پہلوان!... اور اپنے ہی پاوں
کا پیشاوری جوتا نکال کر اپنے ہی منھ پر
مارتا ہے گنڈامل پہلوان ہی جوتا مارتا ہے ۔ مگر وہ اپنی بیٹی کی عصمت نہ بچا سکنے
والا! اپنی بیٹی کی عصمت کے لئے اپنی جان نہ دے سکنے والا گنڈا مل پہلوان کے منھ پر جوتے مارنے والا گنڈا مل پچھلے سترہ سال میں کہیں اپنے ہی اندر
کی گہرائیوں میں دفن ہو چکا تھا۔
آج اچانک گنڈا مل پہلوان کا بھاری
بھرکم جسم پتھرا گیا ہے۔ گنڈا مل پہلوان کی آنکھیں پھرچُندھاتی چلی
جارہی ہیں اور اسے لگ رہا ہے کہ چاروں طرف گہرا دھند سا چھایا ہوا ہے اور اس دھندمیں دکھہرن موچی کے جھونپڑے کے باہر صرف
کمزور اور قابل رحم دکھہرن موچی نہیں کھڑا ہے بلکہ خود گنڈا مل پہلوان ہی کھڑا ہے۔ اور اس کے پیچھے وہ
کیلاسو نہیں کھڑی ہے۔ گنڈا مل پہلوان نے
گیہوں صاف کرواتے وقت جس کے گال پر چٹکی کاٹ لی تھی، بلکہ سترہ سال پہلے کی کَنولی کھڑی ہے۔
گنڈا مل پہلوان کے کانوں میں اس باردُلی
چند پہلوان کہی ہوئی بات گونج اٹھی کہ دکھہرن موچی نے کیسے چمرو دِکھا کر کہا تھا
کہ- " کہہ دینا اپنے باپ گنڈال مل سے،
کہ اس نے ابھی دکھہرن موچی کا کمزور جسم ہی دیکھا ہے کی،کیلا سو کے باپ کا دل نہیں دیکھا
ہے۔"
دکھہرن موچی کا چھوپڑا کچھ ہی فاصلے پر رده گیا ہے۔ گنڈا مل پہلوان نے سوچا کہ
اس کو اپنے چھوپڑے کی طرف آتے ہوئے دیکھتے ہی دکھہرن موچی آگے بڑھ آتا ہے اور ٹھیک
ویسے ہی اپنے پاؤں کاچمرو دھا گنڈا مل کے منھ پر دے مارتا ہے جیسے کبھی گنڈامل
پہلوان نے خود اپنے منھ پر مارا تھا۔ اورگنڈامل پہلوان مُردے کی طرح ساکت ، اپنی
جگہ پر کھڑا رہ جاتا ہے۔ اسے صاف - صاف لگتا ہے کہ اس کے مقابلے میں صرف بیوہ
کیلاسوکا باپ دکھہرن موچی ہی نہیں ہے بلکہ خود اس کے ہی اند کا وہ باپ بھی کھڑا ہے
،جو اس کے لاشعور میں ضمیر کا ایک بوجھ بن کر اندر دبا رہ گیا ہے کہ اپنی بیٹی کی
عصمت کے لئے وہ اپنی جان کی بازی نہیں لگا سکا۔
گنڈا مل پہلوان کو لگا کہ بس، اسی بنیاد پر وہ دکھہرن موچی کے سامنے کمزور پڑا
ہوا ہے۔ اُسے لگا۔ اُسے اپنے اندر کا وہ کھونٹا مل گیا ہے جس سے بندھے- بندھے اُس
کا جنگلی گینڈے جیسابھرا ہواجسم کمزور پڑ گیا ہے۔"
گنڈامل پہلوان کی آنکھوں کی نسیں کھنچاؤ سے ٹوٹنے کو ہو چکی تھیں - اُسے لگاکہ
دکھہرن موچی نے اپنی کٹنی اس کی آنکھوں کی پُتلیوں میں چُھودی ہے اور انھیں باہر
بھیج رہا ہے جیسے کوئی مچھوارہ ٹڑپتی ہوئی مچھلیوں کو پانی سے باہر کھینچتا ہے۔ پھراُسے لگا اس کی ننگی پیٹھ پرجگل پنواڑی کی
ساڑھے تین اِنچ کی موچھیں لوہے کی گرم
کیلوں کی طرح گھستی چلی جارہی ہیں ۔دکھہرن موچی کے ہاتھ کاچمرودھا اپنے منھ پر برداست کرگنڈامل پہلوان ایکدم چُندھیا یاسا چپ چاپ کھڑا ہے۔ جُگل پَنواڑی اپنے موٹے
ہونٹوں کے نیچے دَبی سُرتی کوگنڈا مل پہلوان کی طرف اچھالتے ہوئے کہہ رہا ہے-
"کیوں بے پہلوان! میں نے تو زرا سا چونا ہی لگانے کی بات کہی تھی،اتنے پر ہی
چھاتی پر چڑھ بیٹھا تھا۔کہاں گئی تیری مردانگی اور پہلوانی، جومنھ پر تھکواکر اور چمرودھا
کھا کر بھی چپ چاپ ہی کھڑا ہے۔"
گنڈا مل پہلوان کہنا چاہتا ہے کہ مجھ کوجوتا مارنے کا حق دار دکھہرن موچی ہی
ہوسکتا ہے !ــــــگنڈا مل پہلوان کہنا چاہتا ہے کہ اپنے منھ پرچمرودھا مارنے کا
حق دار صرت خودہی ہوسکتا ہوں ۔ مگر اس کی زبان ایک دم کندہوجاتی ہے۔
گنڈامل پہلوان کولگا کہ جب بھی وہ جگل
پیواڑی اوربھیڑ کی باتیں سوچتا ہے۔ ایک عجیب سی گھبراہٹ اس کوبو کھلانے لگتی ہے۔
اور اپنی اس طرح کی گھبراہٹ کے لمحوں میں اپنی غیر یقینی حالت کو اور زیادہ
صاف -صاف پہچنے لگتا ہے۔ اور اپنے آپ کو اس طرح پہچاننےلگناہی شاید اس بات کو پہچاننے لگنا بھی ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو
پوری -پوری زندگی کیسے انہیں ٖفیصلوں کے مطابق بسر ہو جاتی ہے جو اُن پر دوسروں کے
ذریعہ تھوپ دئے جاتے ہیں۔ اس کوصاف -صاف لگا کے بھیڑ میں ایک بار اپنے آپ کو گنڈامل
کی شکل میں پہچانوادینے کے بعد اپنا فیصلہ خود لے سکنے کی طاقت وہ کھوچکاہے۔
گنڈامل پہلوان نے پوری گہرائی سے اپنی کمزوری کو محسوس کیا کہ اس وقت وہ دکھہرن
موچی سے نہیں بلکہ صرف اپنے آپ سے ہی لڑ سکنے کی حالت میں ہے۔ اور اپنے آپ سے ہی
لیتا ہوا آدمی ہر حالت میں صرف ہارتا ہی ہے چائے وہ اکیلے کے ہاتھوں میں ہارئے یا
بھیڑ کے ہاتھوں میں۔
اُس نے یہ بھی محسوس کیا کہ سترہ سال پہلے اسی کے ہاتھوں ہارا ہواگنڈا مل پہلوان اب دوبارہ ہارنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ
محسوس کر رہا تھا کہ انسان ہمیشہ اپنےہی
ہاتھوں شکست کھاتا ہے۔ اپنی ہی شرم اور اپنی ہی کمزوری کے ہاتھوں، اور اس کے سامنے
بھی وہ خود اپنے ہی ہاتھوں شکست زدہ ہونے کی حالت ہی باقی رہ گئی ہے۔ اب چاہے وہ بھیڑ
کے سامنے با رے یا دکھہرن موچی کے سامنے۔
اس کے علا وہ گنڈامل پہلوان پہلی بار ایک بات یہ بھی سوچنےلگا کہ دکھہرن موچی
اور کیلا سوسے بدلہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کر نے کا حق دار صرف خود گنڈا مل پہلوان ہی ہوسکتا ہے دوسرا کوئی نہیں ۔ اور اسے
صرف اسی موضوع پر اس کی ہار جیت کا دار ومدار ہے کہ وہ خود اپنے فیصلے پر عمل کر پاتا
ہے یانہیں۔
اس بارگندامل پہلوان نے اپنی آنکھوں کا پانی پوچھ کر انگلی سے پرے چھٹک دیا ،
اور جب تک بھیڑ گنڈامل پہلوانــــــــاورگنڈامل پہلوان، دکھہرن موچی اور
کیلا سو تک پہنچے، کچھ قدم کے فاصلے پر ہی
اپنی چار خانی لنگی کے دوٹکڑوں کو اپنی کمر سے لپیٹا ہوا گندا مل پہلوان سامنے والےنالے کی طرف بڑھ گیا۔
0 टिप्पणियाँ