Ad Code

New Update
Loading...

Shailesh Matiyani Story- MRS Greenwood/کہانی مسیز گرین ووڈ- شیلیش مٹیانی

 


ہندی کہانی- مسیز گرین ووڈ

مصنف- شیلیش مٹیانی

مترجم- فرید احمد

 

المُوڑا کے شمال میں سِنتُولا وَن  واقع ہے۔ ملوط، دیودار،چیڑ اور کافَل کے گھنے  درختوں سے گھرے سِنتُولا وَن  میں مِسیز گِرین ووڈ   اپنے چھوٹے سے گِرین ووڈ کُوٹِیز میں رہتی ہیں۔مِسیز گِرین ووڈکی رُوح ماضی کی زخمی کر دینے والی  یادوں میں  گھری رہتی ہے۔ اَمربیل کی سنہری چادر سے دھکے کافَل کے درختوں کے سامنے بیٹھی مِسیز گِرین ووڈ ، کولگتا ہے- کہاں سے ایک دُھند اٹھ رہی ہے اور ووڈ صاحب  کی رُوح کا عکس اس میں شکل اختیار کرنے لگا ہے۔

کافَل کے درخت کو  کبھی-کبھی کَٹفُوڑوا  (ہُد  ہُد) کُٹ کُٹانے لگتا ہے-  کُٹ- کُٹ- کُٹ.... مِسیز گِرین ووڈ ،  ایک دھما کے ساتھ دروازہ کھولتے ہوئے، تڑتپے ہوئے آنگن میں آتی ہیں، جیسے گھنی سمندری گھاس کو چیرتی ہوئی کوئی زخمی مچھلی  طح پر آ گئی ہو۔

ایک کمرا بیٹھک کا ، ایک سونے کا، ایک  باورچی خانہ اور ایک چھوٹا سا اِسٹور رُوم ، گِرین کوٹیز کا خاکہ خو گِرین ووڈ صاحب نے تیار کیا تھا۔

بولے تھے- " ڈِیر، ایک چھوٹا سا تم ، ایک چھوٹا سا ہم۔  بہت بڑا بنگلہ ہم کو سُوٹ نہیں کرنے سکتا۔ ڈَاینگ رُوم کا اندر دو کرسی  لگائے گا۔ دونوں لوگ بیٹھے گا، کافی پیئے گا، بات چیت کریگا۔ کھانا کھائے گا۔ سِلیپِنگ رُوم کے اندر سوجائےگا۔اس چھوٹے سے بنگلہ کے اندر صرف  لوگ رہےگا، صرف دو جلوگ۔"

مائی گاڈ!  باہر   اِیزِی چِیئر پر لیٹی مِسیز گِرین ووڈ کبھی بہت پریشان ہواُٹھتی ہیں  -اُوہ  ، ہماراصاحب کتنی سچی بات بولتا تھا۔ اس بنگلے کے اندر دو لوگ رہے گا، صرف دولوگ!

گرین ووڈ صاحب  نےلکِھیم پور کھِیری کے ڈی .سی عہدہ سے رِیٹایئرڈ   ہونے کے بعد ، اَلمُوڑا میں سکونت اختیار کرنے کا منصوبہ بنایاتھا۔ بہت پہلے کبھی اَلمُوڑا کے پاس کے بِنسر جنگل میں شکار کھیلنے آئے تھے ۔ اَلمُوڑا کے ڈی.ایم  سَر رَابرٹ کی دعوت  پر۔  تبھی سِنتُولا   وَن  ان کو بہت پسند آیا۔   جب اکیلے تھے۔ رَابرٹ  صاحب   سے انہوں نے کہا، وہ اپنی اکیلی زندگی کے دن ایسے ہی پرسکون سرزمین میں گزارنا چاہتا ہے۔ رَابرٹ صاحب نے یقین دلایا- وہ جب بھی یہاں آباد ہونا چاہیں گے، انتظام ہو جائے گا۔

اَلمُوڑا جانے پر گرین ووڈ صاحب کو صرف بنگلہ کے لئے مناسب زمین نہیں ملی ، بلکہ  اپنے عہدے سے سبکدوشی  کے بعد اکیلی زندگی کی کی بوجھل یادوں کو ایک خوبصورت احساس دینے والی مِس انڈرسَن  بھی مل گیئ۔

مِس انڈرسَن ،  تب رَابرٹ صاحب کے یہاں مہمان کی حیثیت سے تھیں۔ پہلے سینٹ زیویئرس میں تھیں ۔ عمر اور  جسم کے تقازے کو قابو میں نہ رکھ سکیں ۔ فادر نے  پاکیزگی کی علامت چھین لی، نکال دیا۔ کہا کہیں ازدواجی زندگی میں  داخل ہو جاؤ۔ پھر جب ازدواجی زندگی سے فارغ ہو جاؤ، کوئی تڑپ باقی نہ رہے تو سچے دل سے توبہ کر کے اس پاکیزگی کی علامت میں پناہ لینے آ جانا۔خُدا تمہیں نجات دے گا....

ثقافت، تعلیم اور خوبصورتی کا ایک تروینی سنگم تھا، مس انڈرسن،  کرشن بھکت بھائی سوامی شری کرشن پریم کی زیارت اور کیلاس یاترا کی آرزو کے لیے اَلمُوڑہ پہنچی تھی، پھر انتظامات کے سلسلے میں رَابرٹ صاحب سے ملاقات کی۔ مِس اینڈرسَن کی عمر چالیس پار کر چکی تھی۔ لیکن اس کے چہرے کا نور اور بھی نورانی تھا۔ آنکھوں میں ایک چمک تھی، جس نے ایک ہی نظر میں دوسروں کی بینائی پکڑ لی تھی -جیسے سورج کی کرن کنول کی کھلی پنکھڑیوں تک پہنچ رہی ہو!

شروعاتی زندگی سے ہی تنہائی کے  عادی گرین ووڈ صاحب نے محسوس کیا کہ کام کی زندگی نوکروں اور ماتحتوں کے درمیان کٹ گئی ہے، لیکن فرصت کے تنہا دنوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک ساتھ کی ضرورت ہے۔ تنہائی کا پیمانہ دن بہ دن ایک طرف جھکتا چلا جا رہا ہے، اسے  ایک توازن چاہئے ۔

خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ زندگی بھر  کے خشک گرین ووڈ صاحب ساٹھ سال کی عمر میں مِس اینڈرسَن کے سینےسے ایسے لگ گئے جیسے برسوں پہلے ٹرین میں گم ہونے والا بچہ ہو۔ اپنی پریشانیاں، اپنی ویرانی مِس اینڈرسَن کے حوالے کر کے گرین ووڈ صاحب مِس اینڈرسَن کے ساتھ ایک گھنی شام سِنتُولا وَن کے اس دلکش علاقے تک پہنچے تھے۔ اور کہا - 'مِس، جب ہم پیدا ہوا تو ہم اکیلا تھا۔ ہمارے والد انگریز تھا، ماں ہندوستانی برہمن تھا۔ پرورش آنٹی صوفیہ نے کیا۔بہت اچھی طرح سے کیا، مگر ہم ہمیشہ اکیلا رہا۔ اکیلے سے ہمارا مطلب ، دوسرا لوگ، کئی لوگ ہم کو محبت کیا،مگر ہم کسی کو محبت نہیں کیا۔پڑھا-لکھا ترقی کیا۔ صاحب بنا، سب کچھ کیا ، محبت نہیں کیا۔اِدھر اَلمُوڑا یہی سوچ کر آیا، پیدا ہوا تو اکیلا تھا، مرتے ٹائم بھی اکیلا رہنا مانگتا! مِس اپنا، آخری وقت نکالنے کے واسطے ہم کو ہندوستان کے پہاڑی علاقہ کے علاوہ کوئی جگہ پسند نہیں  آتا۔ بولو ، یہ کیسا لاگا تمہارے دل کو ڈِیر۔

اچھا لگتا،  ایک دم اچھا-اچھا، ڈِیر!

بہت اچھا۔ تم بھی ہندوستانی بول سکتا۔ ہم کو بہت خوشی ہوئی۔ جس جگہ کا اُپر رہنا ، اس جگہ کا مٹی کا زبان بولنے سے  انسان اپنے کو 'فورنر' محسوس نہیں کرتا.... اِدھر ہم گھر کا مالک رہیگا، مِس! مگر صرف دو لوگ رہیگا، صرف دو لوگ۔ گِرین ووڈ صاحب کا گلا بھر آیا تھا۔

صرف دو لوگ کیوں ڈِیر؟

تیسرا لوگ بھی ہو سکتا ہے، ڈِیر! اکیلا زندگی کاٹنے کے واسطے ہم پہلے بہت گناہ کیا۔ مگر بچہ نہیں بانانے کے واسطے ہم اُپریشن کرایا۔ تب تیسرالوگ نہیں ہو سکتا۔ بولو تم کو کوئی اعتراض ہونے سکتا؟

التجا کے بوجھ سے گرین ووڈ صاحب کی آنکھیں جھک گئیں تھیں۔ مِس اینڈرسَن نےعِیسیٰ مسیح کے خطبات پڑھ رکھےتھے۔ سوگوار روح کو اطمینان اور خوشی فراہم کرانا خدا کوپانے  کا بہترین راستہ ہے

اب جب-جب کافَل کے درخت کو کَٹفُوڑوا (ہُد  ہُد) کُٹ کُٹاتا ہے، مِسیز گِرین وودڈ آندھی کی طرح باہر آنگن میں چلی آتی ہیں۔ کافَل کے درخت پر چھائی اَمربیل کو یک نظر دیکھتے -دیکھتے ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ 'گرین ووڈ کوٹیز '  تیار ہو جانے پر ، باہر آرام کرسی پر لیٹے-لیٹے، ایک  دفعہ گرین ووڈ صاحب  نے کہا تھا- 'ڈِیر، جیسے اس کافَل کے درخت کے اپر اَمر بیل چھایا ہوا، ٹھیک ایسے ہی مافق، ہمارا ویران زندگی کے  اُپر تم۔ '

مائی گاڈ!  مسیز ووڈ کبھی -کبھی  تکلیف سے  تڑپ اٹھتی ہیں- ہمارا صاحب کتنا سچھا، کتنا اچھا، ایک دم چھوٹی بے بی کامافق  پیارا بات بولتا تھا۔ ناٹی بُوائے  کہیں کا ! بولتا تھا –' چھاتی کے پاس سر کو ٹکانے کو بعد ، ہندوستا ن کے اندر عورت کا چھاتی، مدَر کے چھاتی کے مافق پِیس فول ہوتا ، ڈِیر۔'

مسیز  ووڈ  پچھتاوے سے پریشان ہو جاتی  ہیں، جب-جب انہیں یہ محسوس ہوتا ے کہ  انہوں نے صرف شوہر کو نہیں ، بلکہ ایک معصوم بچے جیسی روح کو بھی کھو دیا ہے۔

آج بستر پہ سے اٹھی، تبھی دل بہت پریشان  ہو رہا تھا۔  کافَل کے درخت کو کَٹفُوڑوا (ہُد  ہُد) کُٹ کُٹاتا ہے، تو قابوں میں رہا نہیں جاتا۔ نہیں تو، کبھی-کبھی جیسے آج ہی، مسیز گرین ووڈ کی آرز و ہوتی ہے- گرین ووڈ صاحب کی یادوں کو چھاتی سے لگائے، قیامت تک سوتی پڑی رہے..... مگر ایک کَٹفُوڑوا(ہُد  ہُد) کافل کے درخت کو  کُٹ کُٹاتا ہے، تو دوسرا کلیجہ کو کُٹ کٹُاتا ہے۔

خدا نے کہا ہے- "ایک دفعہ کا گناہ اگلے کئی گناہوں  کا راستہ کھولتا ہے۔ گناہ سے بچنا ہی ، آخری گناہ سے نجات ہے۔ خدا کے قول سچ ہوتے ہیں۔"

خدا نے کہا ہے -"تمہاری روح میں شیطان اور مقدس دیوتا دونوں رہتے ہیں۔ ہر صبح روشنی کی پہلی کرن کے ساتھ دعا کرو۔ مقدس دیوتا کو بیدار کرو۔ وہ آپ کو وہ کام کرائے گا جو آپ کو رب کے پاس لے جائیں گے۔ شیطان کو سونے دو، وہ جہنم لے جانے والے کام کرواتا ہے...!

مگر مجبوری تھی۔ گرین ووڈ دیر تک منھ  ڈھانپ کر سورہے تھے۔ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ مسیز گرین ووڈ نوکر شُوبَن  کو جگایا کرتی تھیں۔ خدا نے کہا ہے- '' جو گناہ کی چکنی چٹان پر پاؤ  ٹِکاتا ہے، پھسل جاتا ہے، پھر جلدی نہیں  سنبھلتا۔ ''

مسیز گرین ووڈ بھی نہیں سنبھال سکیں ۔ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ روز شیطان کی روح جاگ رہی ہے۔ روز جگاتی رہی۔.... اور ایک دن خدا کےقول  سچ ہوئے۔

مائی گاڈ! مسیز گرین ووڈ تڑپ اٹھتی ہیں- ہمارا صاحب کتنا سچ بولتا تھا- ڈِیر،  اس چھوٹا سا بنگلہ کے اندر دو لوگ ہیگا۔صرف  تم ، صرف ہم ! صرف دو لوگ....

.... اور جب تیسرا آیا تھا ، ایک دم معصوم بچہ ، صبح کو جگائے ہوئے شیطان کا بچہ، تو گرین ووڈ صاحب ایک عجیب سی خاموشی کے ساتھ خدا کے گھر چلے گئے تھے.... اور مسیز گرین ووڈ کو وہ معصوم بچہ  گرین ووڈ صاحب سے بھی زیادہ بوڑھا اور کھوسٹ لگا تھا۔

اور....

سالوں گزر گئے ہیں۔ مسیز گرین ووڈ کا سَدابَہار سا چہرہ چھرّیوں سے بھر گیاہے۔ 'گرین ووڈ کُوٹِیز'  میں بھی صرف دو ہی لوگ رہتے ہیں- مسیز گرین ووڈ اور شُوبَن۔ مگر مسیز گرین ووڈ ہمیشہ یہی محسوس کرتے رہنا چاہتی ہیں  کہ 'گرین ووڈ کُوٹِیز' میں صرف دو ہی لوگ رہتے ہیں۔ ایک مسیز گرین ووڈ اور ایک گرین ووڈ کی روح! شُوبَن سے انہوں نے کہہ دیا ہے -اس بنگلہ کے اندر صرف دو ہی لوگ رہ سکتے ہیں! .... شُوبَن بھی سمجھ دار ہے۔ میم صاحبہ کے علاوہ اس کا بھی کوئی دوسرا سہارا نہیں۔ اب اس بڑھاپے میں وہ بے چارہ جائے بھی کہاں؟ بالکل غلام کی طرح سر ہلاتے ہوئے کہا- اب تیسرا کوئی کہاں آئے گا میم صاحب  !

مسیز گرین ووڈ صبر کر لیتی ہیں ۔ خدا کے قول یاد رہتے ہیں۔ گناہ کو جگہ نہ دو ، مگر گناہ گار کو جگہ دو ، کیوں کہ  وہ بھی رب العزت کا گمراہ بیٹا ہے۔

بس اب دل کو سکون دینے کے لئے دیوار پر   ٹنگی خدا کی آدم قد تصویر رہ گئی ہے۔ خدا کے پیروں میں سر جھکا کر، دیر تک آنسوں بہاتی ہیں مسیز گرین ووڈ، تو انہیں  خوشگوار سکون ملتا ہے.... تو یہ مت سمجھ کہ گناہ تونے خد کیا  ہے۔ خدا نے تیری روح کا امتحان لیا ہے۔ گناہ کی آگ میں مت جل، خدا سے معافی  مانگ۔ دھوپ کا جلا پھول بارش کے پانی سے  پھر تازہ ہو جاتا ہے۔

کٹ فوڑوا (ہُد ہُد)جیسے ایک طے وقت پر کُٹ –کُٹ کرتا ہے۔

باہر سے آئی مسیز گرین ووڈ ۔ کافَل کے   درخت کے اُپر اَمربیل  چھائی ہوئی دیکھی- اے خدا! کافل کے درخت کا اُپر ہمارے صاحب کی روح!

مسیز گرین ووڈ نے ، جزبات میں آکر، ایک پتھر کا ٹکڑا اُٹھایا اور پوری طاقت کے ساتھ کٹ فوڑوا کی طرف پھینکے کی کوشش کی ، مگر پیچھے سے آگے کی طرف لاتے ہوئے، ہاتھ ایک دم کانپ گیا۔ پتھر کا ٹکڑا ان کے ہی کان کو زخمی کرتا ہوا  زمین پر گر پڑا۔

شُوبَن گملوں میں پانی دے رہا تھا، دوڑا-دوڑا ہوا آیا۔ پتھر  کے نکیلے کونے سے کان کٹ گیا تھا۔ گیلے کپڑے سے کان کو پوچھنے  اور 'ٹنچر' لگانے کے بعد، شوبن بولا- 'میم صاحب، آپ آرام کرو۔'

مسیز گرین ووڈ چارپائی پر لیٹنے لگی، تو یکایک خیال آیا، آج تو جمعہ ہے، گرین ووڈ صاحب کی خوشی کا دن ۔ ہر جمعہ کو  مسیزگرین ووڈ، گرین ووڈ صاحب کی پرانی پوشاقوں کو  'برش' کرتی ہیں ، اور ان کا 'ڈِنر سیٹ ' بہت ہی ملامیت سے صاف کرتی ہیں۔ ایک -ایک یاد کو لمس کرنے  کا احساس  ۔

شوبن کئی مرتبہ گرین ووڈ صاحب کی پوشاقوں کو مانگ چکا ہے۔ بولتا ہے- 'میم صاحب، بے کار میں کپڑا برباد کرنے سے کیا فائدہ؟'

مسیز گرین ووڈ تڑپ اٹھیں – او شیطان ، ہم بھی تو   بےکار میں تمہارے ساتھ اپنا زندگی برباد کیا! ہم کو کیا مل سکا؟

'ڈِنر سیٹ' میں کھانے کی خواہش ظاہر کر چکا ہے ایک بار، مگر مسیز گرین ووڈ نے پھٹکار دیا۔ شوبن ، صاحب مر بھی گیاتو ہمارا صاحب ہے! تم زندہ بھی ہے تو صاحب کا نوکر ہے! اپنا اوقات سے زیادہ مانگے گا ، ہم نہیں دے سکتا۔

شوبن پاؤ دبانے لگا۔ شروع سے دباتا آیا ہے۔ خدا نےکہا-'شیطان پاؤ کے راستہ سر تک پہنچتا ہے۔'

مسیز گرین ووڈ انٹنے لگی- ''شوبن بس کرو بابا، ہم کو صاحب کا  کپڑا 'برش' کرنا ہے،' ڈِنر سیٹ' بھی صاف  کرئے گا، بہت ' لیٹ 'ہو گیا ہم آج۔'  '

آپ کو تکلیف ہے ،میم صاحب! آپ آرام سے لیٹے رہیں ۔ صاحب کا کپڑا اور ڈَنر سیٹ کی صافائی میں کر دوں گا۔ شوبن اپنی انگلیوں سے  ہلکے-ہلکےمسیز گرین ووڈ  کے تلوے تھپتھپاتے بولا۔

'اچھا-اچھا۔' اُپری دل سے مسیز گرین ووڈ بولیں- 'یہ ہمارا منھ کے سامنے ، صاحب کا سامان کا صفائی کرو۔ سمجھا؟'

شوبن کپڑوں کو 'برش 'سے جھاڑ رہا تھا۔ مسیز گرین ووڈ محسوس کر رہی تھیں ، بہت ہی لا پرواہی سے شوبن  کام کر رہا ہے ۔ جیسے-تیسے کپڑے نبٹے، 'ڈِنر سیٹ' کی باری آئی۔

بڑی 'رائز پلیٹ' شوبن سے گری تو کچھ ایسے ہی طریقہ سے کہ لگے، بے احتیاتی سے گر گئی۔ ۔۔۔ مگر مسیز گرین ووڈ کی آنکھوں سے شوبن کے چہرے پر اُبھری لکیریں چھپ نہ سکیں ۔ اُدھر فرش پر 'رائز پلیٹ' گری، ٹکڑے-ٹکڑے بکھر گئی۔ اِدھر چیل کی طرح مسیز گرین ووڈ شوبن پر ٹوٹ پڑیں۔ اپنی اُنچھی ایڑی کی 'سنڈل' سے انہوں نے شوبن کو پیٹنا شروع کر دیا- 'او  ، ہندوستانی کتّا! یو، ایڈیٹ! تم ہمارا صاحب سے جلتا ہے؟ تم اپنا اوقات پر نہیں رہ سکتا؟ نکل جاو ہمارا بنگلہ سے ۔ نکل جاو  بولتا ہم تم سے، یو، ڈاگ! گیٹ آوٹ! نکل جاو نہیں تو ہم تم کہ شوٹ کر دیگا۔'

بہت ہی ذلت اور رسوائی سے جلتی آنکھوں سے گھورتا –گھورتا، شوبن باہرچلا گیا۔ نفرت، ذلت اور غصے سے اسے  اپنی  رگ –رگ فٹتی ہوئی لگ رہی تھی۔اِدھر-اُدھر سے اپنا کپڑا لتّا بٹورنے کے بعد ، وہ مسیز گرین ووڈ کے کمرے تک آیا، اور زور سے فرش پر تھوکتا ہوا، نہایت ہی نفرت اور غصہ سے  چیخا- 'گوری چڑیل! آج سے تیرے بنگلہ کے اندر تھوکنے بھی نہیں آئےگا!'

بہت دیر تاک مسیز گرین ووڈ  اپنی انگارے جیسی جلتی آنکھوں سے  غصہ ،حسد اور نفرت سے، پِٹے ہوئے آوارہ کتّے کی طرح بِلبلاتے ہوئے،بورھے باروچی کو جاتے  دیکھتی رہی۔ پھر پاگل کی طرح چیخی- 'جانے دو سالا ہندوستانی کتے کو !  ابھی اس بنگلہ کے اندر صرف دو کوگ رہے گا۔ صرف دو لوگ۔ ایک ہم ، ایک ہمارا صاحب۔۔۔'اور پھر اس کی زور کی  ہنسی سے سارا بنگلہ کانپ اٹھا۔

پاگل پن کچھ کم ہوا ، مسیز گرین ووڈ نے ڈَبڈبائی انکھوں سے تلاشتے –تلاشتے، رائز پلیٹ کے سارے ٹکرے بین دالے۔ ان ٹکڑوں کو چارپائی پر رکھنے کے بعد۔ مسیز گرین ووڈ نے 'ڈِنر سیٹ ' کے ایک ایک 'پیس' کو بہت ہی احتیاط سے تولئیے سے صاف کیا۔ایک ناقابل برداشت اذیت اور غم و غصے کی وجہ سے مسیز گرین ووڈ کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔ کوشش کرنے پر بھی، وہ اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہی تھیں۔ بہت مشکل سے انہوں نے 'ڈِنر سیٹ' کو الماری تک پہنچایا، کُنڈی کھول کر  اندر سنبھالنا ہی چاہتی تھی کہ اچانک خدا عیسیٰ مسیح کی آدم قد تصویر نیچے گر پڑی اور 'ڈِنر سیٹ' کا ایک-ایک 'پیس' ٹوٹ کر بکھر گیا!....

حیرت زدہ سی  مسیز گرین ووڈ دیر تک ایک ہی جگہ تھر-تھر کانپتی کھڑی رہ گئیں۔ پھر یکایک تیزی سے آگے بڑھیں....اور انہوں نے خدا عیسیٰ مسیح کی تصویر کو دیوار کے سہارے کھڑا کر دیا۔ پھر خدا کے پاؤ پر سر رکھ کر ، بالکل نادان بچی کی طرح بلکھنے لگیں- او مائی گاڈ! ابھی ہم کیا کر سکتا؟ انسان ہم کو تکلیف دیا، ہم اس کو گھر سے باہر نکال دیا۔.... مگر تم خدا ہو کر اس سے بھی بڑی تکلیف دیا،  تم کو کیسے گھر کے باہر نکال سکے گا ؟

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ