ہندوستانی آئین ساز اسمبلی کی واحد مسلم خاتون- بیگم اعجاز رسول
جب بھی ہندوستان کے آئین کی تشکیل پر بات کی جاتی ہے تو سرکردہ مرد حضرات کے نام اور ان کے تعاون کی تعریف کی جاتی ہے۔ جبکہ خواتین نے بھی ہندوستانی آئین کی تشکیل میں خصوصی کردار ادا کیا ہے۔ جنہوں نے 2 سال 11 ماہ اور 17 دن آئین ساز اسمبلی کے مرد ممبران کے ساتھ 12 میٹنگز میں حصہ لے کر پوری ایمانداری اور لگن سے آئین بنانے میں کام کیا۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پدرانہ ذہنیت نے آدھی آبادی کی پوری تاریخ کو ہمیشہ پوشیدہ رکھا۔ اس فراموش کی وجہ سے ہم نے آئین سازی کی خواتین اور ان کے انمول تعاون کو بھلا دیا۔
آئین ساز اسمبلی کے کل 389 میمبران میں سے 15 خواتین میمبر تھیں اور ان 15 خواتین میمبر میں سے واحد مسلم خاتون بیگم قدسیہ اعجاز رسول تھیں جنہوں نے ہندوستان کے آئین کا مسودہ تیار کرنے مین اہم کردار ادا کیا۔
![]() |
بیگم اعجاز رسول |
بیگم اعجاز رسول نے اپنے شوہر کے ساتھ مسلم لیگ کی شمولیت اختیار کر گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے نفاذ ہونے پر انتخابی سیاست کا سفر شروع کیا اور یو پی سے 1937 کے انتخابات میں ایک غیر محفوظ نشست سے منتخب ہوکریوپی ا سمبلی کی رکن بنی۔ 1937سے 1940 تک آپ نے یو پی اسمبلی کے نائب صدر کے عہدہ پر اپنی خدمات کو انجام دیا۔
بیگم اعجاز رسول مسلم لیگ کے ان ارکان میں سے ایک تھیں جنہوں نے 1946 سے 1950 تک ہندوستانی آئین ساز اسمبلی میں بطور رکن خدمات انجام دیں۔1947 میں تقسیم ہند کے ساتھ ہی مسلم لیگ بھی تقسیم ہو گئی، بیشتر اراکین نے پاکستان کا رخ اختیار کیا اور ہندوستان میں مٹھی بھر اراکین ہی ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی میں شامل ہو گئے۔ بیگم اعجاز رسول کو وفد کا ڈپٹی لیڈر اور آئین ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف منتخب کیا گیا۔ جب پارٹی کے رہنما چوہدری خلیق الزمان بھی پاکستان چلے گئے تو بیگم اعجاز رسول کوان کی جگہ مسلم لیگ کی رہنما بنایا گیااور اقلیتی حقوق کی مسودہ سازی کی ذیلی کمیٹی کی رکن بنائی گئی۔
بیگم اعجاز رسول نے ڈرافٹنگ کمیٹی کی میٹنگ میں اقلیتی حقوق سے متعلق بحث کے دوران مسلمانوں کے لیے 'علیحدہ انتخابی مجلس' کے خیال کی مخالفت کی۔ آپ نے اس خیال کو 'خودکش ہتھیار' قرار دیا۔ آپ کا خیال تھا کہ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے 'علیحدہ انتخابی مجلس' کا قیام کیا گیا تو یہ مسلمان اور اقلیتوں کو ہمیشہ کے لیے اکثریت سے الگ کر دے گا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے 'خاص حقوق' کی مخالفت کرتے ہوئے آپ نے کہا -
”ہم بحیثیت مسلمان اپنے لیے کوئی خاص حقوق نہیں چاہتے لیکن ہم کسی بھی طرح کا کوئی بھید-بھاؤ بھی نہیں چاہتے ہیں۔ اسی لیے میں کہتی ہوں اس عظیم ملک کے شہری ہونے کے ناطے ہم یہاں رہنے والوں کی امیدوں کو شریک کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ عزت اور انصاف کا برتاؤ کیا جائے گا۔“
تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کا پاکستان چلا جانا، ہندوستانی مسلمانوں کے سماجی اور سیاسی نظریہ کے تحط فکر کا موضوع رہا۔بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا کہ ریزرویشن کے بغیر مسلمانوں کو عوامی نمائندگی نہیں مل سکے گی۔ لہذا ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ریزیرویشن کی پیشکش کی جانی چاہئے۔ اس پر بیگم اعجاز رسول نے کہا –
”میں مستقبل میں کسی بھی ایسی سیاسی جماعت کا تصور نہیں کرتی، جو مسلمانوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے کرے۔ مسلما ن اس ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت کبھی بھی مسلمانوں کو نظر انداز کر سکتی ہے۔“
مذہب اور وفاداری کے متعلق بیگم اعجاز رسول نے مجلس کے سامنے اپنے خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ –
”مجھے سمجھ نہیں آتا کہ وفاداری اور مذہب ایک ساتھ کیوں چلتے ہیں؟ میں محسوس کرتی ہوں کہ جو لوگ حکومت کے خلاف کام کرتے ہیں اور تخریبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان یا کسی اور برادری کے لوگ، وہ وفادار نہیں ہیں۔ جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے، میں سمجھتی ہوں کہ میں بہت سے ہندوؤں سے زیادہ وفادار ہوں کیونکہ ان میں سے بہت سے تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، جب کہ میرے دل میں اپنے ملک کے لئے محبت ہے۔“
بیگم اعجازرسول نے امید ظاہر کی کہ ہندوستان کا آئین خواتین کے ساتھ ہو رہے امتیازی سلوک کو ختم کر دے گا، اور اس نئی جمہوریہ میں خواتین کے لیے مساوات کو یقینی بنائے گا۔
”ہندوستان کی خواتین زندگی کی سرگرمیوں کے تمام شعبوں میں مردوں کے ساتھ مکمل برابری کی اپنی صحیح وراثت کو آگے بڑھاتے ہوئے خوش ہیں۔میں یہ اس لیے کہتی ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ یہ کوئی نیا تصور نہیں ہے جو اس آئین کے مقاصد کے لیے اپنایا گیا ہو۔ یہ ایک ایسا آئیڈیل ہے جسے ہندوستان نے ایک طویل عرصے سے پالا ہے۔تاہم سماجی حالات نے اسے کچھ عرصے کے لیے عمل سے باہر کر دیا تھا۔ یہ آئین اس آئیڈیل کی تصدیق کرتا ہے اور یقین دلاتا ہے کہ جمہوریہ ہند میں قانون کے تحت خواتین کے حقوق کا مکمل احترام کیا جائے گا۔“
بیگم اعجاز رسول 1952 سے 1956 تک راجیہ سبھا کی رکن رہیں۔ آپ بنیادی حقوق کی مشاورتی کمیٹی کی تین خواتین اراکین میں سے ایک تھیں۔ 1969 اور 1971 کے درمیان، سماجی بہبود اور اقلیتوں کے وزیرکے عہدہ پر اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے سماجی بہبود و فلاح، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے لئے کا م کرتی رہیں۔ کھیلوں میں آپ گہری دلچسپی رکھتی تھیں۔20 سال تک ’انڈین ویمنز ہاکی فیڈریشن‘ کے صدر کا عہدہ سنبھالا اور ْاِیشین وِیمَن ہاکی فیڈریشنٌ کی صدر بھی رہیں۔ انڈین ویمنز ہاکی کپ آپ ہی کے نام پرْبیگم رسول ٹرافیٌ رکھا گیا ہے۔
1953 میں وہ وزیر اعظم کے وفد کے ساتھ جاپان گئیں اور 1955 میں ترکی کا دورہ کرنے والے ہندوستانی پارلیمانی وفد کی رکن میں شامل تھیں۔ بیگم اعجاز رسول ادب میں بھی گہری دلچسپی رکھتی تھیں ْ جاپان میں تین ہفتے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ مختلف اخبارات اور رسائل سے بھی آپ منسلک رہیں اور مختلف اخبارات اور رسائل میں آپ کے مضامیں شائع ہوئے۔ آپ نے 'پردا- ٹو- پارلیمنٹ(ہندوستانی سیاست میں ایک خاتون) عنوان سے سوانح عمری لکھی۔
2000 میں بیگم اعجاز رسول کو سماجی خدمات میں شراکت کے لئے ہندواستان کا تیسرا سب سے بڑا شہری اعجاز 'پدم بھوشن' سے نوازا گیا۔ اور اسی سال 01 اگست 2000 کو ہندوستان کی عظیم شخصیت بیگم قدسیہ اعجاز رسول کا 92 سال کی عمر میں لکھنو میں انتقال ہو گیا۔
![]() |
فرید احمد ہلدوانی نینی تال |
0 टिप्पणियाँ