بھگت سنگھ
اچھوت مسئلہ
کانگریس
کا اجلاس
١٩٢٣
ءمیں کاکیناڈا میں منعقد ہوا۔ محمد علی جناح
نے اپنی صدارتی تقریر میں موجودہ دور کی درج فہرست ذاتوں کو، جنہیں ان دنوں
'اچھوت' کہا جاتا تھا، ہندو اور مسلم تنظیموں میں تقسیم کرنے کا مشورہ دیا۔ اس
طبقاتی تفریق کو یقینی بنانے کے لیے ہندو اور مسلم امیر لوگ پیسے دینے کے لیے تیار
تھے۔
اس طرح اچھوتوں کے یہ دوست انہیں مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اسی وقت جب اس معاملے پر بحث کا ماحول تھا، بھگت سنگھ نے 'اچھوت کا سوال' کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ اس مضمون میں محنت کش طبقے کی طاقت اور حدود کا اندازہ لگانے کے بعد اس کی ترقی کے لیے ٹھوس تجاویز دی گئی ہیں۔ بھگت سنگھ کا یہ مضمون جون ١٩٢٨ ءکے کیرتی میں شائع ہوا تھا۔
ہمارے ملک جیسی بُری حالت کسی اور ملک میں نہیں ہوئی۔ یہاں
عجیب و غریب سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ ایک اہم سوال اچھوت مسئلہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تیس
کروڑ کی آبادی والے ملک میں چھ کروڑ لوگ جو اچھوت کہلاتے ہیں، ان کے محض چُھو جانے
سے مذہب خراب ہو جائے گا! ان کے مندروں میں داخل ہونے پر دیوتا ناراض ہو جائیں گے!
کنویں سے پانی نکالیں گے تو کنواں ناپاک ہو جائے گا! یہ سوالات بیسویں صدی میں کئے
جا رہے ہیں جنہیں سن کرہی شرم آتی ہے۔
ہمارا ملک نہایت ہی روحانیت پسند ہے لیکن ہم انسان کو انسان
کا درجہ دینے سے بھی کتراتے ہیں ۔جبکہ یورپ جسے مکمل طور پر مادیت پسند کہا جاتا
ہے وہ کئی صدیوں سے انقلاب کی آواز بلند کر رہا ہے۔ انہوں نے امریکہ اور فرانس کے
انقلابات کے دوران ہی مساوات کا اعلان کر دیا تھا۔ آج روس نے بھی ہر قسم کی تفریق
ختم کر انقلاب کے لیے کمر بستہ ہے۔ ہم ہمیشہ روح الہی کے وجود کے بارے میں فکر مند
رہتے ہیں اور ایک زبردست بحث میں پڑے رہتے ہیں کہ کیا اچھوتوں کو 'جنیو' دیا جائے
گا؟ کیا وہ وید پڑھنے کے حقدار ہیں یا نہیں؟ ہمیں شکایت ہے کہ بیرونی ممالک میں
ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ انگریزی حکومت ہمیں انگریزوں کے برابر نہیں
سمجھتی۔ لیکن کیا ہمیں یہ شکایت کرنے کا
حق ہے؟
سندھ کے ایک مسلمان جناب نور محمد نے جو بمبئی کونسل کے رکن
ہیں، ١٩٢٦ ءمیں اس موضوع پرخوب کہا-
“If the
Hundu society refuses to allow other human beings, fellow creatures so that to
attend public school, and if।। the president of
local board representing so many lakhs of people in this house refuses to allow
his fellows and brothers the elementary human right of having water to drink,
what right have they to ask for more rights from the bureaucracy? Before we
accuse people coming from other lands, we should see how we ourselves behave
toward our own people।। how can we ask for greater political rights when
we ourselves deny elementary rights of human beings?”
وہ کہتے ہیں -کہ جب تم ایک انسان کو پینے کے لیے پانی تک دینے سے انکار
کرتے ہو ، جب تم انہیں اسکول میں پڑھنے تک
نہیں دیتے ہو توتم کو کیا حق ہے کہ اپنے لیے مزید حقوق کی مانگ کرو؟ جب تم ایک انسان کے مساوی حقوق دینے سے انکار کرتے ہو توتم مزید سیاسی حقوق مانگنے کے کیسے حقدار بن گیے؟
یہ بالکل سچ ہے۔ لیکن یہ بات ایک مسلمان نے کہی ہے،تو ہندو کہیں گے کہ دیکھو، وہ اِن اچھوتوں کو
مسلمان بنا کر اپنے میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔
جب تم ان کو جانوروں سے بھی گیا گزرا سمجھوگے تو وہ یقیناً
دوسرے مذاہب میں شامل ہو جائیں گے، جس میں انہیں زیادہ حقوق ملیں گے، جہاں ان کے
ساتھ انسانوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔ پھر یہ کہنا کہ دیکھو عیسائی اور مسلمان ہندو
قوم کو نقصان پہنچا رہے ہیں، فضول ہو گا۔
کتنا واضح بیان ہے، لیکن یہ سن کرسبھی تِلمِلا اُٹھے ہیں ۔
ہندوؤں کو بھی ایسے ہی خدشات تھے۔ سناتنی پنڈتوں نے بھی اس مسئلہ پر کسی حد تک
سوچنا شروع کر دیا۔ درمیان میں وہ لوگ جو بڑے 'ارتقائی' کہلاتے ہیں اس میں شامل
ہوئے۔ پٹنہ میں ہندو مہاسبھا کا کنونشن لالہ لاجپت رائے کی صدارت میں منعقد ہوا -
جو اچھوتوں کے پرانے حامی رہے ہیں - ایک
گرما گرم بحث چھڑ گئی۔ مسئلہ یہ تھا کہ کیا اچھوتوں کو جنیو پہننے کا حق ہے یا نہیں؟
اور کیا انہیں ویدوں اور شاستروں کا مطالعہ کرنے کا حق ہے؟ بڑے بڑے سماجی مصلح دنگ
رہ گئے لیکن لالہ جی نے سب کو راضی کر لیا اور ان دونوں باتوں کو مان کر ہندو مذہب
کی لاج رکھ لی۔ ورنہ ذرا سوچو، کتنی شرم کی بات ہوتی۔ کتا ہماری گود میں بیٹھ سکتا
ہے۔ ہماےکچن میں اکیلے ہی گھوم سکتا ہے لیکن اگر کوئی انسان ہمیں چھو لے تو دھرم
بھرشٹ ہو جاتا ہے۔ اس وقت مالویہ جی جیسے عظیم سماجی مصلح، اچھوتوں کے بہت پیارے ،
کسی اچھوت کے ہاتھوں سے اپنے گلے میں ہار پہن لیتے ہے، لیکن کپڑوں سمیت غسل کے
بغیر اپنے آپ کو ناپاک سمجھتےہیں! کیا زبردست چال ہے! سب سے پیار کرنے والے بھگوان
کی عبادت کے لیے ایک مندر بنایا گیا ہے، لیکن اگر اچھوت وہاں داخل ہو جائیں تو وہ
مندر ناپاک ہو جاتا ہے۔ بھگوان ناراض ہو جاتا ہے! جب گھر کا یہ حال ہے تو کیا
برابری کے نام پر باہر لڑنامناصب ہے؟ پھر ہمارے اس رویے میں بھی ناشکری کی انتہا
پائی جاتی ہے۔ جو لوگ ادنیٰ ترین کام کر
کے ہمیں سہولتیں دیتے ہیں انہیں ہی ہم بھگا
دیتے ہیں۔ ہم جانوروں کی پوجا تو کر سکتے ہیں لیکن انسانوں کو قریب نہیں بٹھا
سکتے۔
آج اس سوال پر بہت شور ہو رہاہے۔ اُن خیالات پر ان دنوں خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ ملک میں جس طرح سے آزادی کی خواہش بڑھ رہی ہے، فرقہ وارانہ جذبات سے کوئی اور فائدہ ہو یا نہ ہو، لیکن اس سے ایک فائدہ ضرور ہوا ہے۔ ہر کوئی زیادہ حقوق مانگنے کے لیے اپنی -اپنی برادریوں کی تعداد بڑھانے سے پریشان تھا۔ مسلمانوں نے کچھ زیادہ ہی اصرار کیا۔ انہوں نے اچھوتوں کو مسلمان بنا کر مساوی حقوق دینا شروع کر دیے۔ اس سے ہندوؤں کی اَنا کو ٹھیس پہنچی۔ مقابلہ بڑھ گیا۔ فسادات بھی ہوئے۔ آہستہ آہستہ سکھوں نے بھی سوچا کہ ہم پیچھے کیوں رہ جایئں ۔ وہ بھی امرت چھڑکنے لگے۔ ہندوؤں اور سکھوں کے درمیان اچھوتوں کے اپنے جنیو اتارنے یا بال کٹوانے کے سوال پر لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ اب تینوں قومیں اچھوتوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ اس کا بہت شور-شرابہ ہے۔ اُدھرعیسائی خاموشی سے انکی حیثیت بڑھا رہے ہیں۔ چلو اس سارے ہنگامے سے ہی ملک کی بدنصیبی کی لعنت دور ہو رہی ہے۔
اِدھر جب اچھوتوں نے دیکھا کہ ان کی وجہ سے فسادات ہو رہے ہیں
اور ہر کوئی انہیں اپنی خوراک سمجھ رہا ہے تو وہ خود کو منظم کیوں نہ کریں؟ اس خیال
کو عملی جامہ پہنانے میں انگریزی حکومت کا کوئی ہاتھ ہو یا نہ ہو لیکن یہ بات طے
ہے کہ اس پروپیگنڈے میں حکومتی مشینری کا ہاتھ تھا۔ 'آدی دھرم منڈل' جیسی تنظیمیں
اسی خیال کو پھیلانے کا نتیجہ ہیں۔
اب ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا صحیح حل کیا
ہونا چاہیے؟ اس کا جواب بڑا اہم ہے۔ سب سے پہلے یہ طے کر لیا جائے کہ تمام انسان
برابر ہیں اور نہ تو کوئی جنم سے غیر
برابر ہے اور نہ ہی کام سے۔ یعنی چونکہ ایک آدمی غریب مہتر کے گھر پیدا ہوا ہے، وہ
ساری عمر صرف گندگی ہی صاف کرے گا اور اسے دنیا میں کسی قسم کے ترقیاتی کام کرنے
کا کوئی حق نہیں؟ یہ باتیں فضول ہیں۔ اس طرح ہمارے آباؤ اجداد آریائیوں نے ان کے
ساتھ ناانصافی کی اور انہیں گھٹیا کہہ کر ان کی توہین کی اور ان سے نچلے طبقے کے
کام کروانے لگے۔ ساتھ ہی یہ فکر بھی ہوئی کہ شاید وہ بغاوت نہ کر دیں، پھر پُنر
جنم کے فلسفے کا پرچار کیا کہ یہ تمہارے پچھلے جنم کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ اب کیا
ہو سکتا ہے؟ خاموشی سے دن گزارو! اس طرح ان کو صبر کی تلقین کر کے طویل عرصے تک کے
لئے انہیں تسلی دے دی گئی۔ لیکن اس نے بہت
بڑا گناہ کیا۔ انسان کے اندر کی انسانیت کو ختم کر دیا۔ خود اعتمادی اور خود
انحصاری کے جذبات کو ختم کر دیا۔ بہت ظلم اور ناانصافی کی گئی۔ آج ان سب کی تلافی
کا وقت ہے۔
اس کے ساتھ ایک دوسرا مسئلہ ہو گیا۔ لوگوں کے ذہنوں میں ضروری کاموں
کے لیے نفرت پیدا ہو گئی۔ ہم نےجُلاہوں کوبھی لعنت بھیجی۔ آج کپڑا بُننے والوں کو
بھی اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ یو. پی کی طرف، کہار کو بھی اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ اس سے
بڑی گڑبڑی پیدا ہو گئی۔ ایسے میں ترقی کے
عمل میں رکاوٹیں پیدا ہو گئی۔
جب گاؤں میں مزدوروں کی مُہم شروع ہوئی تو اس وقت سرکاری
آدمی کسانوں کو یہ کہہ کر بھڑکاتے تھے کہ دیکھو وہ بھنگی چماروں کو سر چڑھا رہے ہیں، تمہارا کام بند کر دیں گے۔ بس کسان
اتنے میں ہی غصہ ہو گیے۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی حالت اس وقت تک نہیں سدھر
سکتے جب تک وہ ان غریبوں کو گھٹیا اور کمینے کہہ کر اپنے جوتے تلے رکھنا چاہتے ہیں۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ صاف نہیں رہتے ۔ اس کا جواب صاف ہے - وہ غریب ہیں۔ غربت کا
علاج کرو۔ اعلیٰ طبقے کے غریب لوگ بھی کم گندے نہیں رہتے۔ گندےکام کرنا بھی بہانہ
نہیں چل سکتا ، کیونکہ مائیں اپنے بچوں کی گندگی صاف کر نے سےمہتراور اچھوت تو نہیں ہو جاتیں۔
ان طبقوں کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ہمیں نہ تو ان کو اچھوت
کہنا چاہیے اور نہ ہی سمجھنا چاہیے۔ بس، مسئلہ حل ہو گیا۔ نوجوان بھارت سبھا اور
نوجوان کانگریس نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ بہت اچھا ہے۔ جو لوگ آج تک اچھوت
کہلاتے رہے ہیں، ان سے ان کے گناہوں کی معافی مانگیں اور انہیں اپنے جیسا انسان
سمجھیں، ان کے ہاتھ سے امرت چھڑکائے بغیر پانی پینا، کلمہ پڑھانا یا ان کو پاک
کرنا، یہی صحیح طریقہ ہے۔ اور آپس میں لڑنا اور عملی طور پر کوئی حق نہ دینا درست
بات نہیں۔
لیکن یہ کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اچھوت برادریاں
خود کو منظم نہ کر لیں ۔ ہم تو یہ سمجھتے
ہیں کہ ان کا اپنے آپ کو الگ سے منظم کرنا اور مسلمانوں کے برابر کی تعدات میں ہونے کی وجہ سے ان کے برابر مساوی حقوق کا
مطالبہ کرنا بہت امید افزا نشانی ہے ۔ یا تو فرقہ وارانہ تفریق کی مصیبت ختم کرو،
ورنہ انہیں ان کے الگ حقوق دو۔ کونِسلوں اور اسمبلیوں کا فرض ہے کہ انہیں اسکول،
کالج، کنوئیں اور سڑکوں کے استعمال کی مکمل آزادی دیں۔ نہ صرف زبانی بلکہ ساتھ لے
جا کر کنوؤں پر چڑھایئں۔ بچوں کو سکولوں میں داخل کروائیں۔ لیکن وہ اچھوتوں کو
قانون ساز ادارے میں شامل کرنے کی جرأت کیسے کر سکتے ہیں جہاں کم عمری کی شادی کے
خلاف بل پیش کیے جاتے ہیں اور مذہب کا بہانہ بنا کر شور مچایا جاتا ہے۔
اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے اپنے عوامی نمائندے ہونے
چاہئیں۔ وہ اپنے لیے زیادہ حقوق مانگے۔ ہم صاف کہتے ہیں کہ اٹھو، حقیقی عوامی خدمت
گار اور اچھوت کہلانے والے بھائیو! اٹھو! اپنی تاریخ دیکھو۔ گرو گوبند سنگھ کی فوج
کی اصل طاقت تم ہی تھے! شیواجی تمہارے بھروسے
پر ہی سب کچھ کر سکے، جس وجہ سے آج بھی ان
کا نام زندہ ہے۔تمہاری کی قربانیاں سنہری حروف میں لکھی ہوئی ہیں۔ تم لوگ روزانہ کی
خدمت کر کے لوگوں کی خوشیوں میں اضافہ کر کے اور زندگی کو آسان بنا کر اتنا بڑا احسان کر رہے ہو، اسے ہم لوگ
نہیں سمجھتے ۔ لینڈ ایلینیشن ایکٹ کے مطابق آپ پیسے جمع کرنے کے بعد بھی زمین نہیں
خرید سکتے۔ تم پر اتنا ظلم ہو رہا ہے کہ مس میو انسانوں سے بھی کہتی ہیں کہ جاگو،
اپنی طاقت کو پہچانو۔ منظم ہو جائیں۔ درحقیقت خود کو آزمائے بغیر کچھ حاصل نہیں
ہوگا۔ (Those who would
be free must themselves strike the blow) آزادی کے متلاشیوں
کو آزادی کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ انسانوں میں رفتہ-رفتہ ایسی عادتیں پیدا ہو گئی
ہیں کہ وہ اپنے لیے زیادہ حقوق چاہتا ہے، لیکن وہ اپنے ماتحتوں کو اپنے جوتوں کے نیچے
رکھنا چاہتا ہے۔ ایک کہاوت ہے- 'لاتوں کے بھوت باتوں سےنہیں مانتے'۔ یعنی منظم ہو کر اپنے پیروں پر
کھڑے ہو جائیں اور پورے معاشرے کو للکاردو۔ پھر دیکھنا تمہارے حقوق سے کوئی انکار
کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ تم دوسروں کی
خوراک نہ بنو۔ دوسروں کے چہروں کی طرف مت دیکھو۔ لیکن ہوشیار رہیں،نوکر شاہی کے
جال میں نہ پھنس نا۔ یہ تمہاری کوئی مدد
نہیں کرسکتی بلکہ تمہیں اپنا پیادہ بنانا چاہتی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نوکر شاہی
تمہاری غلامی اور غربت کی اصل وجہ ہے۔ اس لیے تم اس کے ساتھ کبھی نہیں ملنا۔ اس کی
حرکتوں سے بچنا۔ پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے
گا۔ تم حقیقی محنت کش ہو... منظم ہو جاؤ۔ تمہارا کچھ بھی نقصان نہ ہوگا۔ صرف غلامی
کی زنجیریں کٹیں گی۔ اٹھو اور موجودہ نظام کے خلاف بغاوت بلند کرو۔ رفتہ-رفتہ
بہتری سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ سماجی تحریک
کے ذریعے انقلاب پیدا کریں اور سیاسی اور معاشی انقلاب کے لیے کمر بستہ ہوجاو۔ تم ہی ملک کی بنیاد ہو، اصل طاقت ہیں۔ سوئے ہوئے شیروں!
اٹھو اور بغاوت کھڑی کردو۔
مترجم- فرید احمد
0 टिप्पणियाँ