Ad Code

New Update
Loading...

میں ملحد کیوں ہوں؟

 بھگت سنگھ

میں ملحد کیوں ہوں؟

یہ مضمون بھگت سنگھ نے جیل میں رہتے ہوئے لکھا تھا۔ جو کہ ٢٧ ستمبر  ١٩٣١کو لاہور کے اخبار ’’دی پیپل‘‘ میں شائع ہوا ۔ اس مضمون میں بھگت سنگھ نے خدا کی موجودگی اور اس دنیا کی تخلیق، انسان کی پیدائش، انسان کے ذہن میں خدا کے تصور کے ساتھ- ساتھ دنیا میں انسان کی کمتری، اس کے استحصال پر بہت سے منطقی سوالات اٹھائے ہیں۔ دنیا میں پھیلی افراتفری اور مزید طبقاتی تفریق کے حالات کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے۔ یہ مضمون بھگت سنگھ کی تحریروں کے سب سے زیادہ زیر بحث حصوں میں سے ایک رہا ہے۔


ایک نیا سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ میں اپنی اَنا  کی وجہ سے قادر مطلق اور عالم الغیب خدا کا اِنکار کرتا ہوں۔میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ مجھےکبھی اس مسئلے سے سامنا کرناپڑے گا ۔لیکن اپنے کچھ دوستوں  سے بات-چیت کے دوران  مجھے ایسا محصوس ہوا کہ میرے کچھ دوست، اگر دوستی کا میرا دعویٰ غلت نہ ہو، تو میرے ساتھ اپنے مختصر  سے تعلق میں  اس نتیجہ پر پہنچنے کے لئے بےچین ہیں کہ میں خُدا کے وجود  سے انکار کر کے کچھ ضرورت سے زیادہ آگے جا رہا ہوں  اور میری اَنا نے کچھ حد تک مجھے اس یقین کے لئے آمادہ کیا ہے ۔

جی ہاں……. یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔میں ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرتا کہ میں بشری کمزوریوں سے بہت اُپرہوں۔ میں ایک انسان ہوں اور انسان سے زیادہ کچھ نہیں۔  اس سے زیادہ ہونے کا دعویٰ  کوئی کر بھی نہیں سکتا۔ ایک کمزوری میرے اَندر میں بھی ہے۔اَنا میری فطرت کا حصہ ہے۔اپنے کامریڈ وں کے بیچ مجھے  اکثر تاناشاہ کہا جاتا تھا۔ یہاں تک میرے دوست جناب بی .کے.دَت بھی کبھی-بھی ایسا کہتے تھے ۔کئی مواقع پر تانا شاہ کہ کر میری مذمت  کی جاتی تھی ۔کچھ دوستوں کییہ شکایت ہے، اور سنجیدہ طور پر ہے کہ   میں اپنی  رائے زبردستی دوسروں پر تھوپتا ہوں اور اپنی بات منوا لیتا ہوں۔یہ بات کسی حد تک درست ہے، اس سے میں انکار نہیں کرتا۔ دوسری مشہور آرا کے مقابلے میں میری رائے منفرد ہے اور مجھے اس پہ بجا طور پر فخر ہے۔لیکن  یہ انفرادی نہیں ہے۔ایسا ہو سکتا ہےکہ یہ صرف اپنے یقین کے لیے فخر ہو اور اسے گھمنڈ نہیں کہا جا سکتا ۔ گھمنڈ یا صحیح  الفاظ میں اَنا  تو خُد کے لئے غیر ضروری گھمنڈ کی زیادتی ہے۔ تو کیا یہ غیر ضروری گھمنڈ ہے جو مجھے اِلحاد کی طرف لے گیا……؟  اس مسئلہ پر احتیات کے ساتھ خوب غوروفکر کرنے  پر میں نے خُدا کے وجود کا انکار کیا؟  یہی وہ سوال ہے جس کے متعلق میں یہاں بات کرنا چاہتا ہوں۔لیکن پہلے میں یہ صاف کر دوں کہ خودپسندی اور غیر ضروری فخر و تکبر دو الگ-الگ باتیں ہیں۔

پہلی بات تویہ  میری سمجھ میں نہیں آسکی کہ غیر ضروری غرور اورگھمنڈ خدا پر ایمان لانے میں کیسے رُکاوٹ بن سکتا ہے؟ اصل میں میں کسی عظیم شخص کی عظمت تسلیم کرنے سے انکار اس وقت کرسکتا ہوں جب مجھے بھی کوئی شہرت نصیب ہوگئی ہو، جس کا میں حقدار نہ ہوں، یا میرے اندر وہ خوبیاں نہ پائی جاتی ہوں، جو اس کیلئے ناگزیر ہیں۔یہاں تک تو سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جو  خدا پر ایمان رکھتا ہو ، لیکن اپنے غرور یا فخر کے باعث وہ خدا پر ایمان رکھنا چھوڑ دے ۔ایسا دو ہی صورتوں میں ممکن ہے۔انسان خود کو خدا کا رقیب یا مخالف سمجھنے لگے یا پھر خود کو خدا سمجھنے لگے۔ان دونوں صورتوں میں وہ ایک سچا مُلحد نہیں بن سکتا۔پہلی صورت میں تو انسان اپنے خدا کے وجود کا انکار ہی نہیں کررہا جبکہ دوسری صورت میں وہ لاشعوری طور پر ایسی قوت کا اقرار کررہا ہے جوپسِ پردہ اس کائنات کا نظام چلارہی ہے۔ہمارے لئےاس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ وہ خود کو خدا سمجھتا ہے یا خدا کا تصور اس سے پَرے کچھ اور ہی ہے۔ اصل بات تو موجود ہے۔ اس کا ایمان موجود ہے۔ وہ کسی بھی طرح ایک مُلحد نہیں ہے۔

میں تو یہ کہنا چاہتا تھا کہ نہ تو میں پہلے درجے میں آتا ہوں  اور نہ ہی دوسرے درجے میں۔ میں تواس  قادر مطلق خدا کے وجود کا انکار کرتا ہوں۔میں اس سے کیوں انکار کرتا ہوں یہ بعد میں دیکھیں گے ۔یہاں میں ایک بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میرے انکارِ خدا کے پیچھے کسی قسم کا کوئی گھمنڈیا اَنا نہیں ہے۔نہ میں خدا کا حریف ہوں ، نہ ہی میں خود خدا ہوں۔آئیے غور کرتے  ہیں کہ اس الزام کی کیا حقیقت ہے۔


میرے بعض دوستوں کا خیال ہے کہ دہلی بم کیس اور لاہور سازش کیس سے مجھےجو شہرت ملی ہےاس وجہ سے میں گھمنڈی ہو گیا ہوں۔تو پھر آیئے دیکھتے ہیں  کیا یہ صحیح ہے۔

میرا الحاد آجکل میں پیدا نہیں ہوا ہے۔میں نے تو خدا کو ماننا اسی وقت چھوڑ دیا تھا جب میں ایک عام انسان تھا۔میرے یہ دوست شاید اس وقت میرا نام تک نہ جانتے ہوں۔کم سے کم ایک کالج کا طالب علم  ایسی کسی غیر ضروری اَنا کو نہیں پال سکتا  جو اسے الحاد کی طرف لے جائے۔بعض پروفیسرکا میں چہیتا طالب علم تھا اور بعض مجھے ناپسند کرتے تھے۔لیکن میں کبھی بھی کوئی لائق یا محنتی طالب علم نہ رہا۔اَنا جیسی سوچ و فکر کا تو کوئی موقعہ ہی نہ مل سکا۔ میں تو ایک شرمیلا سا لڑکا تھا۔ان دنوں میں اگرچہ کامل ملحد نہیں تھا۔میرے بابا، جن کے زیر سایہ میں نے پرورش پائی ، وہ ایک قدامت پرست آریہ سماجی ہیں۔ایک آریہ سماجی کچھ بھی ہو مگر مُلحد نہیں ہوسکتا۔ابتدائی تعلیم کے بعد میں نے ڈی .اے .وی اسکول لاہور میں داخلہ لیا اور  پورے ایک سال تک ہاسٹل میں رہا۔وہاں صبح و شام کی دُعا  اور عبادت کے علاوہ میں گھنٹو گایتری منَتر کا جاپ کرتا تھا۔اس زمانے میں مذہبی عبادات و رسومات سرانجام دیا کرتا تھا اور ایک مکمل مذہبی انسان تھا۔بعد میں اپنے والد کے ساتھ رہنا شروع کردیا جو مذہبی قدامت پرستی کے مقابلے میں ایک لبرل سوچ کے حامل انسان تھے۔یہ انہی کی تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ میں نے اپنی پوری زندگی جدوجہد آزادی کیلیے وقف کردی ہے۔وہ مُلحد نہیں ہیں اور خدا پر کامل یقین رکھتے ہیں۔وہ مجھے روزانہ پُوجا پاٹ کی تلقین کیا کرتے تھے۔اس طرح کے  ماحول میں میری پرورش ہوئی ۔

تحریک عدم تعاون کے زمانے میں ، میں نے نیشنل کالج میں داخلہ لیا اور اسی زمانے میں نے خدا ، تصور خدا ، اور دیگر مذہبی معاملات کا تنقیدی نگاہ سے جائزہ لینا شروع کیا۔اور ابھی بھی میں مکمل ایمان والا تھا۔ میں نے  لمبے بالوں کو رکھنا شروع کر دیا تھا  لیکن مجھے کبھی بھی سکھ مت یا دوسرے کسی مذہب کی دیومالاوں ، شریعت وغیرہ پہ یقین نہ ہو سکا۔لیکن  مجھے خدا کے وجود پر یقین تھا۔

بعد میں انقلابی پارٹی سے وابستہ ہوگیا۔جس لیڈر سے میرا پہلے پہل رابطہ ہوا ، اُن ہیں خدا کے وجود پر کامل یقین تو نہیں تھا لیکن انکار کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے تھے۔خدا کے متعلق میرے بار- بار پوچھنے پر  یہی کہتے تھےکہ "جب دل چاہے تو عبادت کرلیا کرو-" یہ اِلحاد ہے ……..جس میں اس یقین کو  اپنانے  کی قوت نہ ہو۔ دوسرے لیڈر جن سے میرا تعلق قائم ہوا وہ ایک سچے پکے مذہبی تھے۔ان کا نام بتاتا چلوں ، جناب کامریڈ شچندر ناتھ سنیال صاحب ، جو ان دنوں کاکوری سازش کیس میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ان کی معروف کتاب " بَندی جیون" میں پہلے صفحے سے ہی خدا کے گن گائے گئے ہیں ۔اس کتاب کے دوسرے حصہ  کے آخری صفحہ پر  انہوں نے  خدا کی تعریف میں جو پھول برسائے ہیں وہ  ان کے خیالات  کا عجیب و غریب حصہ ہے۔٢٨ جنوری ١٩٢٥ء کو پورے ہندوستان میں انقلابی پرچہ تقسیم کیا گیا تھا جو کہ انہی کی ذہنی قوت کا نتیجہ تھا۔ اب اس طرح کے پوشیدہ کام میں کوئی خاص لیڈر، لازمی طور پر اپنے خیالات کو ہی ظاہر کرتا ہے اور  دیگر رُکن کو اس سے متفق ہونا پڑتا ہے ان اختلافات کے باوجود بھی جو واجب ہو سکتے ہیں۔  اس پرچے میں ایک پورا پیراگراف خدا کی حمد و ثنا پر مشتمل ہے۔یہ سب تصوف ہے۔

میں جو کہنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ  خدا کا انکار تو انقلابی پارٹی میں بھی نہیں ہوا تھا۔کاکوری کیس میں شہرت پانے والے چاروں شہید بھی اپنے آخری وقت میں عبادت اور پوجا پاٹ کرنے لگے تھے۔رام پرساد بسمل تو ایک قدامت پرست آریہ سماجی تھے۔راجندر لاہری بھی سوشلزم اور کمیونزم کے گہرے مطالعے کے باوجود گیتا اور اُپنِشدوں کا ورد کرنے سے باز نہیں آسکے تھے۔ان سب میں میں نے ایک ہی شخص دیکھا جو دعا اور عبادت نہیں کرتا تھا ، جس کا کہنا تھا کہ فلسفہ اصل میں انسان کی کمزوریوں اور علم کے محدود ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔آجکل وہ بھی عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ لیکن خدا کے وجود کو نکارکرنے کی کبھی اس نے ہمت نہیں کی۔

اس وقت تک تو میں بھی ایک رومان پرور انقلابی تھا۔اب تک ہم  دوسروں کے احکام  کو تسلیم کرتے تھے ۔اب اپنے کندھوں پہ  ذمہ داری اُٹھانے کا وقت آیا تھا۔  کچھ وقت تک تو  پارٹی کا وجود ہی ختم ہوتا نظر آرہاتھا۔جوشیلے کامریڈ ہی نہیں بلکہ لیڈروں نے بھی ہمارا  مزاق اُڑانا شراع کر دیا تھا۔ کچھ وقت تک تو مجھے بھی یہ خوف رہا کہ کہیں میں بھی  منتشر نہ ہو جاؤں ۔یہ میری  انقلابی زندگی  کا ایک اہم موڑ تھا ۔ اس وقت ذہن کے گوشوں میں صرف مطالعہ کی گونج تھی۔مخالفین کی دلائل کا جواب دینے کیلئے بھی مطالعہ ، اپنی رائے کو مضبوط کرنے کیلئے بھی مطالعہ ، لہذا میں نے مطالعہ شروع کردیا۔مطالعے کے بعد میرے پُرانے خیالات اور اعتقادات میں تبدیلی آگئی۔پُرانے ساتھیوں کے ساتھ جو تشدد والے طریقوں کا لطف آتا تھا ، اب ان کی جگہ سنجیدہ نظریات نے لے لی تھی۔اب تصوف اور اَندھی تقلید کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔حقیقت ہی ہماری  بنیاد تھی ۔تشدد تو صرف اسی صورت میں جائز ہے جب کسی اشد ضرورت کے وقت کیا جائے۔ورنہ عدم تشدد کا اصول ہی ہر تحریک کا حصہ ہوناچاہیے۔

یہ تو رہی طریقوں کی بات ۔ سب سے اہم بات اس فلسفےکی ہے جس کو ہمیں  سمجھنا تھا ۔جس کیلئے ہمیں لڑنا ہے۔ کیونکہ ان دنوں چونکہ کوئی خاص انقلابی سرگرمیاں نہیں تھیں لہذا مجھے عالمی انقلابات کے متعلق خوب پڑھنے کا موقع ملا۔میں نے بکونین کے انارکسٹ فلسفے کو پڑھا ، بابائے اشتراکیت کارل مارکس کو پڑھا ، مگر لینن ، ٹراٹسکی وغیرہ کا زیادہ مطالعہ کیا جو اپنے -اپنےملکوں میں کامیاب انقلاب لے آئے تھے۔یہ سبھی مُلحد تھے۔بکونین کی کتاب 'خدا اور مملکت'  اس حوالے سے ایک اہم کتاب ہے۔ پھر نرلمب سوامی کی کتاب 'سہج گیان'ملی۔اس میں الحاد کا عنصر شامل ہے۔اس موضوع میں میری دلچسپی اب بہت بڑھ گئی ہے۔١٩٢٦ کے آخر تک  مجھے اس بات کا کامل یقین ہوگیا تھا کہ ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ قادر مطلق خدا نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے ، اور وہی اس کائنات کو چلا رہا ہے ۔ یہ ایک کوری بکواس ہے۔میں نے اپنی اس سوچ کو ظاہر کیا۔دوستوں سے بحث و مباحثے شروع کیے۔یہی وہ وقت تھا جب میں پوری طرح مُلحد ہوگیا۔ لیکن اس کا مطلب کیا تھا؟  یہ میں آگے بتاؤںگا ۔

مئی ١٩٢٧ء میں مجھے لاہور میں گرفتار کرلیا گیا۔ یہ گرفتاری اچانک ہوئی۔میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ پولیس مجھے ڈھونڈ رہی ہے۔ایک باغ سے گزرتے ہوئے اچانک میں نے خود کو چاروں طرف سے پولیس میں گھرا ہوا پایا۔تعجب ہے کہ میں اس وقت خاموش رہا۔نہ تو کوئی سنسنی  محصوص ہوئی اور نہ  ہی کوئیاحساس ظاہر ہوئے۔ ۔چپ چاپ گرفتاری دی۔اگلے دن ریلوے پولیس میں لے جایا گیا جہاںمجھے پورے  ایک مہینہ کاٹنا پڑا۔پولیس افسروں سے بات چیت میں معلوم ہوا کہ کاکوری کیس کے افراد کے ساتھ میرے تعلق ہے اور میری انقلابی سرگرمیوں کا پولیس کو علم ہوچکا ہے۔معلوم ہوا کہ مقدمہ چلتے وقت میں لکھنئو میں تھا اور میں نے اپنے ساتھیوں کو چُھڑانے کیلئے بم وغیرہ بھی حاصل کیے تھے۔ان بموں کی آزمائش کیلئے ١٩٢٦ء میں دَسہرے کے موقعے پر ایک بم میں نے ہجوم میں چلایا تھا۔مجھے مزید کہا گیا کہ اگر میں اپنے ساتھیوں کے خلاف سارا سچ اُگل دوں تو مجھے گرفتار نہیں کیا جائے گا ، بغیر عدالت میں پیش کیے مجھے فوراً رِہا کردیا جائے گا اور انعام دیا جائےگا۔اس احمقانہ بات پہ میری ہنسی نکل گئی۔ یہ سب بیکار کی باتیئں تھیں۔ہم جیسی فکر کے حامل معصوم عوام پہ بم نہیں پھینکا کرتے۔

ایک صبح CID کے افسر جناب نیومین میرے پاس آئے اور لمبی-چوڑی ہمدردی والی باتیئں  کرنے کے بعد  مجھے سے  کہا کہ اگر تم نے مطلوبہ بیان نہیں دیا تو تم پر کاکوری کیس اور دَسہرہ بم دھماکے میں بے گناہ لوگوں کے قتل کے جرم میں مقدمہ چلایا جائے گا۔مزید بتایا کہ ہمارے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جو تمہیں پھانسی چڑھانے کیلئے کافی ہیں۔مجھے اگرچہ اپنی بے گناہی کا یقین تھا مگر پولیس چاہتی تو ایسا سچ مچ کر بھی سکتی تھی۔ اُسی دن سے پولیس والوں نے مجھے خدا کو یاد کرنے کا کہنا شروع کردیا۔لیکن میں تو مُلحد ہوچکا تھا۔اب مجھے یہ طے کرنا تھا کہ صرف امن ،خوشی اور تفریح کے دنوں میں ہی میں مُلحد بنا ہوا تھا یا اس کٹھن وقت میں موت کو سامنے دیکھ کر بھی میں اپنے اصولوں پہ قائم رہ سکتا تھا۔کافی سوچ وفکر کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں کسی بھی صورت میں خدا پر ایمان نہیں لاسکتا یا اس کی عبادت نہیں کرسکتا۔میں نے ایک لمحے کیلئے بھی خدا سے فریاد نہیں کی۔یہی وہ حقیقی امتحان تھا جس میں مجھے کامیابی ملی۔لمحہ بھر کو بھی اپنی گردن بچانے کا خیال نہیں آیا۔اس وقت سے لے کر اب تک میں سچا پکا ملحد ہوں۔

اس امتحان میں کامیاب ہونا آسان بالکل نہیں تھا۔ 'ایمان'     تکلیف کو ہلکا کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ انہیں خوشگوار بھی بناسکتا۔ خدا میں انسان ایک بڑی تسلی کی بنیاد پا سکتا ہے۔ اس کے بغیر انسان کو خود پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ آندھی طوفان کے درمیان اپنے پیروں پر کھڑے رہنا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ امتحان کے ان لمحات میں اگر اَنا ہو تو وہ بھانپ بن کراُڑجاتی ہے اور انسان اپنے ایمان کو رد کرنے کی ہمت نہیں کر پاتا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کے پاس نہ صرف اَنا ہے بلکہ کوئی اور طاقت بھی ہے۔ آج صورتحال بالکل ایسی ہی ہے۔ فیصلے کامکمل علم ہے۔ ایک ہفتے کے اَندر اعلان کیا جائے گا کہ میں ایک مقصد کے لیے اپنی جان قربان کرنے جا رہا ہوں۔ اس سوچ کے سوا اور کیا تسلی ہو سکتی ہے؟

ایک ہندو جو خدا پر یقین رکھتا ہے وہ دوبارہ جنم لینے میں بادشاہ بننے کی امید کر سکتا ہے۔ ایک مسلمان یا عیسائی جنت میں خوشحالی کی نعمت اور اس کی تکالیف اور قربانیوں کے صلہ کا تصور کر سکتا ہے۔ لیکن میں کیا توقع کروں……..؟  میں جانتا ہوں کہ جس لمحے میری گردن میں رسی کا پھندا لگیگا اور میرے پیروں کے نیچے سے تختہ ہٹا دیا جائے گا، وہی خاتمہ ہوگا، وہ آخری لمحہ ہو گا۔ میں یا میری روح سب وہیں ختم ہو جائیں گی۔ آگےکچھ بھی  نہیں رہے گا۔ جدوجہد کی ایک مختصر زندگی، جس میں کوئی ایسی شاندار انتہا نہیں ہے، اپنے آپ میں ایک انعام ہو گا - اگر میں اسے اس طرح دیکھنے کی ہمت رکھتایا آخرت کے انعامات کی کسی خود غرض خواہش کے بغیر، میں نے اپنی زندگی کوآزادی کے لیے قربان کر دیا ہے، کیونکہ میں اور کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

جس دن ہمیں اس رویہ کے بہت سے مرد اور خواتین ملیں گے، جو اپنی زندگی انسان کی خدمت اور دکھی انسانیت کی بہتری کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے وقف نہیں کر سکتے، اس دن آزادی کا دور شروع ہو جائے گا۔ وہ استحصال کرنے والوں، ظالموں اور جابروں کو للکارنے کی ہمت  دیں گے۔ اس لیے نہیں کہ انہیں  بادشاہ بننا ہے یا کوئی اور انعام ملنا ہے - یہاں یا اگلی زندگی میں یا مرنے کے بعد جنت میں۔ انہیں انسانیت کی گردن سے غلامی کا پَٹا  اتار کر آزادی اور امن قائم کرنے کے لیے یہ راستہ اختیار کرنا ہوگا۔

کیا وہ اس راستے پر چلے گا  جو اس کے لیے خطرناک ہے لیکن اس کی عظیم روح کے لیے واحد قابل فہم راستہ ہے؟ کیا اس عظیم مقصد میں اس کے فخر کو تکبر سے غلط تعبیر کیا جائے گا؟  کون ہے جو ایسے نفرت انگیز کلمات کہنے کی جرأت کرے گا؟ وہ یا تو احمق ہے یا مکار۔ ہمیں اسے معاف کر دینا چاہیے، کیونکہ وہ دل میں جو بلند خیالات، احساسات، جذبات اور ان کی گہرائیوں کو محسوس نہیں کر سکتا۔ اس کا دل گوشت کے ٹکڑے کی طرح مردہ ہے۔ دوسرے مفادات کے آصیب کے سائے سے اس کی آنکھیں کمزور ہو گئی ہیں۔ خود اعتمادی کو ہمیشہ تکبر کہا جا سکتا ہے۔ یہ افسوسناک اور پریشان کن ہے، لیکن چارا کیا ہے؟

تنقید اور آزاد خیال دونوںہی ایک انقلابی انسان کی لازمی خصوصیات ہیں۔ کیونکہ ہمارے آباؤ اجداد نے کسی عقیدہ پر ایمان پیدا کیا تھا۔ لہٰذا جو بھی شخص اس عقیدے کی سچائی یا اس روحِ اعلیٰ کے وجود کو چیلنج کرے گا، وہ کافراور غدار کہلائے گا۔ اگر اس کے دلائل اس قدر ناقابل تردید ہیں کہ ان کا منطق سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور اس کا ایمان اتنا مضبوط ہے کہ اسے خدا کے غضب سے آفات کا خوف ظاہر کر کے دبایا نہیں جا سکتا تو اسے یہ کہہ کر ملامت کی جائے گی کہ وہ باطل ہے۔ یہ میری اَنا نہیں تھی جو مجھے اِلحاد کی طرف لے گئی۔ میرا استدلال کا طریقہ تسلی بخش ثابت ہوتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ میرے قارئین نے کرنا ہے، مجھے نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ خدا پر یقین آج میری زندگی کو آسان اور میرا بوجھ ہلکا کر دیتا۔ اس پر میری بے اعتنائی نے سارے ماحول کو انتہائی خشک کر دیا ہے۔ تھوڑا سا تصوف اسے شاعرانہ بنا سکتا ہے۔ لیکن میری قسمت کو کسی جنون کے سہارے کی ضرورت نہیں۔ میں حقیقت پسند ہوں۔ میں ضمیر کی مدد سے جبلت پر فتح چاہتا ہوں۔ میں ہمیشہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوا ہوں۔ کوشش کرنا انسان کا فرض ہے۔ کامیابی کا انحصار موقع اور ماحول پر ہے۔ کوئی بھی شخص جو تھوڑا سا عقلی ہو، اپنے ماحول کو منطقی طور پر سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ جہاں براہ راست ثبوت نہیں ہے وہاں فلسفے کی اہمیت ہے۔

جب ہمارے آباؤ اجداد نے فرصت کے وقت کائنات کے اسرار، اس کے ماضی، حال اور مستقبل، اس کے کیوں اور کہاں سے  کو سمجھنے کی کوشش کی تو براہ راست نتائج کی مشکل کی عدم موجودگی میں ہر ایک نے اپنے- اپنے طریقے سے ان سوالات کو حل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں مختلف مذہبی عقائد میں اتنا فرق نظر آتا ہے جو بعض اوقات دشمنی اور جھگڑے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ نہ صرف مشرق اور مغرب کے فلسفوں میں اختلاف ہے بلکہ ہر نصف کرہ کے اپنے -اپنے اختلافات ہیں۔ مشرق کے مذاہب میں اسلام اور ہندومت کے درمیان بالکل بھی مطابقت نہیں ہے۔

خود ہندوستان میں بدھ مت اور جین مت برہمن ازم سے بہت مختلف ہیں، جن میں آریہ سماج اور سناتن دھرم جیسے مخالف نظریات پائے جاتے ہیں۔ پرانے زمانے کا ایک آزاد مفکر چارواک ہے۔ اس نے پرانے زمانے میں خدا کو چیلنج کیا تھا۔ ہر کوئی اپنے آپ کو صحیح مانتا ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پرانے مفکرین کے تجربات اور نظریات کو مستقبل میں جہالت کے خلاف جنگ کی بنیاد بنانے کے بجائے ہم کاہلوں کی طرح چیختے چلاتے، غیر متزلزل اور غیر متزلزل ایمان جو ہم نے ثابت کیا ہے اور اس طرح وہ اپنے آپ کو ثابت کر رہے ہیں۔ انسانیت کی ترقی کو جڑ بنانےکے مجرم ہیں۔

صرف یقین اور اندھا یقین خطرناک ہے۔ یہ دماغ کو بیوقوف اور انسان کو رجعت پسند بنا دیتا ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو حقیقت پسند ہونے کا دعوی کرتا ہے اسے تمام قدیم عقائد کو چیلنج کرنا ہوگا۔ مروجہ آراء کو منطق کی بنیاد پر پرکھنا پڑے گا۔ اگر وہ منطق کے حملے کو برداشت نہ کر سکے تو وہ ٹکڑے -ٹکڑے ہو جائیں گے۔ پھر نئے فلسفے کے قیام کے لیے ان کو مکمل طور پر مسمار کر کے اس جگہ کو صاف کرنا اور پرانے عقائد کی کچھ چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے دوبارہ تعمیر کرنا۔ مجھے یقین ہے کہ قدیم عقائد کی درستگی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایک باشعور روحعالم کا کوئی وجود نہیں ہے، جو فطرت کی حرکت کو ہدایت اورنظام کرتا ہے۔ ہم فطرت پر یقین رکھتے ہیں اور پوری ترقی پسند تحریک کا مقصد فطرت کو انسان کی خدمت کے لیے فتح کرنا ہے۔ اس کو ہدایت دینے کے پیچھے کوئی شعوری طاقت نہیں ہے۔ یہ ہمارا فلسفہ ہے۔ ہم اہل ایمان سے کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں-

·   اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ کائنات کو بنانے والا ایک قادر مطلق، ہمہ گیر اور عالم خدا ہے تو براہ کرم مجھے  یہ بتائیں کہ اس نے یہ کائنات کو  کیوں بنایا؟ مصائب اور دکھوں سے بھری دنیا  لاتعداد مصائب کے ابدی لامحدود اتحاد سے دوچار! ایک بھی شخص پوری طرح مطمئن نہیں ہے۔ براہ کرم یہ نہ کہیں کہ یہ اس کا قائدہ ہے۔ اگر وہ کسی قائدہ کا پابند ہے تو وہ قادر مطلق نہیں ہے۔ وہ بھی ہماری طرح اصولوں کا غلام ہے۔ براہ کرم یہ بھی نہ کہنا  کہ یہ اس کی تفریح ​​ہے۔ نیرو نے تو صرف ایک روم کو جلایا تھا۔ اس نے بہت کم لوگوں کو قتل کیا کیا تھا، اس نے صرف اپنی مکمل تفریح ​​کے لیے تھوڑا سا دکھ پیدا کیا۔ اور تاریخ میں اس کا کیا مقام ہے؟ مورخین اسے کس نام سے پکارتے ہیں؟ تمام زہریلے اشعار اس پر برسائے جاتے ہیں۔ اس کی مذمت، مذمت کے جملوں سے صفحات کالے ہیں - نیرو ایک سنگدل، بے رحم، ظالم ہے۔

·   ایک چنگیز خان نے اپنی خوشنودی کے لیےکچھ ہزار جانیں لیں اور آج ہم اس کے نام سے نفرت کرتے ہیں۔ تو پھر آپ اپنے خدا کو کیسے درست قرار دیتےہو؟ اس ابدی نیرو کو، جو ہر روز، ہر گھنٹہ اور ہر منٹ تکلیف  دیتا رہا ہے، اور اب بھی دے رہا ہے، بے شمار دُکھ اور  تکلیف۔ پھر آپ اس کی بداعمالیوں میں فریق بننے کے بارے میں کیسے سوچتے ہیں، جو ہر لمحہ چنگیز خان زیادہ ہے؟ کیا یہ سب بعد میں ان بے گناہوں کا بدلہ لینے اور ظالموں کو سزا دینے کے لیے ہو رہا ہے؟  ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ آخرتم  کب تک اس شخص کو صحیح ٹھہراتے رہو گے جو ہمارے جسم پر زخم دینے کی جرأت کرتا ہے تاکہ بعد میں نرم و ملائم مرہم لگائےگا؟  گلیڈی ایٹر ادارے کے منتظمین نے کس حد تک ایک آدمی کو بھوکے شیر کے سامنے پھینکنے کا جواز پیش کیا کہ اگر اس نے اس کی جان بچائی تو اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جائے گی۔ اس لیے میں پوچھتا ہوں کہ اس باشعور اعلیٰ روح نے یہ دنیا اور اس میں موجود انسانوں کو کیوں بنایا؟ خوشی لوٹنے کے لیے؟ پھر اس میں اور نیرو میں کیا فرق ہے…….؟

·   تم مسلمانوں اور عیسائیوں! تم پچھلے جنم کو نہیں مانتے۔ تم ہندوؤں کی طرح یہ دلیل پیش نہیں کر سکتے کہ بظاہر دُکھ اور تکلیف  ان کے پچھلے جنموں کے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ میں تم سے پوچھتا ہوں کہ اس اللہ تعالیٰ نے کلام کے ذریعہ دنیا کی تخلیق کے لیے چھ دن کی محنت کیوں کی؟ اور وہ روز کیوں کہتا ہے کہ سب ٹھیک ہے؟  بُلاؤ اسے آج ،اُسے ماضی کی تاریخ دکھاؤ۔ اُسے آج کے حالات کا مطالعہ کرنے دو، ہم دیکھیں گے کہ کیا وہ یہ کہنے کی ہمت کرتا ہے کہ سب ٹھیک ہے………..۔

·   قید خانہ کی کال-کُوٹھریوں سے لے کر جھونپڑیوں کی بستی تک، بھوک سے تڑپتے لاکھوں انسانوں سے لے کر استحصال زدہ محنت کشوں تک جو سرمایہ دار پِشاچ خون چوسنے کے عمل کو صبر سے دیکھ رہے ہیں اور انسانی طاقت کی بربادی کو دیکھ رہے ہیں  کوئی بھی ذرہ بھر بھی عقل رکھنے والا اسے دیکھ کر کانپ جائے گا۔ ضرورت سے زیادہ پیداوار کو سمندر میں پھینک دینا اس سے بہتر ہے کہ اسے ضرورت مندوں میں بانٹ دیا جائے، بادشاہوں کے محلوں میں جن کی بنیادیں انسانی ہڈیوں پر قائم ہیں- اسے ہر کوئی دیکھے اور پھر کہے- سب ٹھیک ہے! کیوں اور کہاں سے؟ یہ میرا سوال ہے۔ تم خاموش ہو ٹھیک ہے، پھر میں آگے چلتا ہوں۔

·   اور تم ہندوو!  تم کہتے ہو کہ آج جو دُکھ تکلیف تم  بُھگت رہے ہیں ،وہ اپنے پچھلے جنموں کے گناہ گار ہیں اور آج کے ظلم کرنے والے ،اپنی پچھلی زندگی میں نیک لوگ  تھے۔ اس لیے وہ اقتدار کے مزے لےرہے ہیں۔ مجھے ماننا پڑے گا کہ آپ کے آباؤ اجداد بہت چالاک لوگ تھے۔ انہوں نے ایسے اصول اور قانون بنائے، جو منطق اور کفر کی تمام کوششوں کو ناکام کرنے کی کافی طاقت رکھتے ہیں۔ فقہ کے مطابق، سزا صرف تین وجوہات کی بنا پر جائز ہو سکتی ہے، اس کا انحصار مجرم پر اس کے اثرات پر ہوتا ہے۔ وہ مزاحمت، خوف اور اصلاح ہیں۔ آج تمام ترقی پسند مفکرین انتقام کے اصول کی مذمت کرتے ہیں۔ خوف زدہ  کا اصول بھی وہیں ختم ہو جاتا ہے۔ اصلاح کا اصول ہی صرف  ضروری ہے جو کہ انسانیت کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ اس کا مقصد مجرم کو ایک قابل اور امن پسند شہری کے طور پر معاشرے میں واپس لانا ہے۔ اگر ہم انسانوں کو مجرم  تسلیم بھی کر لیئں تو پھر بھگوان کی طرف سے دی گئی سزا کی نوعیت کیا ہے؟

·   تم کہتے ہیں کہ وہ انہیں گائے، بلی، درخت، جڑی بوٹیاں یا جانور بنا کر پیدا کرتا ہے۔تم  ٨٤لاکھ ایسی سزائیں گنتے ہو۔ میں پوچھتا ہوں کہ انسان پر بطور مصلح اس کا کیا اثر ہے؟ تم ایسے کتنے لوگوں سےملے ہو ،جو کہتے ہیں کہ وہ اپنے پچھلے جنم میں کسی گناہ کی وجہ سے گدھے کے طور پر پیدا ہوئے ہیں؟  ایک بھی نہیں؟ اپنے پُرانوں (کتابوں)  کی مثالیں نہ دو، میرے پاس تمہاری کتابی کہانیوں  کے لئےکوئی جگہ نہیں ہے۔ اور پھر کیاتم جانتے ہو کہ دنیا کا سب سے بڑا گناہ غریب ہونا ہے؟ غربت ایک لعنت ہے۔ یہ جرمانہ ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کس حد تک تعزیری عمل کی تعریف کرنی چاہیے، جو لامحالہ انسان کو مزید جرائم کرنے پر مجبور کرتا ہے؟ کیا آپ کے خدا نے یہ نہیں سوچا یا اسے بھی انسانیت کے ناقابل بیان مصائب کی قیمت پر تجربے سے یہ سب کچھ سیکھنا پڑا؟ تمہارا کیا خیال ہے، کسی غریب یا جاہل خاندان ، جیسا کہ چمار یامہتر کے یہاں پیدا ہونے پر انسان کی کیا قسمت  ہوگی؟

چونکہ وہ غریب ہے اس لیے وہ پڑھائی نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے ساتھیوں کی طرف سے حقیر اور ترک کر دیا جاتا ہے، جو خود کو اعلیٰ ذات میں پیدا ہونے کی وجہ سے برتر سمجھتے ہیں۔ اس کی جہالت، اس کی غربت اور اس کے ساتھ کیا جانے والا سلوک اس کے دل کو معاشرے کے لیے ظالم بنا دیتا ہے۔ اگر وہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کا خمیازہ کون بُھگتیگا؟ خُدا، وہ خود یا سماج کے بابا……..؟ اور ان لوگوں کی سزا کا کیا ہوگا جنہیں متکبر برہمنوں نے جان بوجھ کر لاعلم رکھا اور جن کو آپ کی مقدس کتابوں یعنی ویدوں کے چند جملے سن کر کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ بہانے کی سزا بھگتنی پڑی تھی؟  اگر وہ کوئی جرم کرتے ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ اور ان کی ضرب کون برداشت کرے گا؟ میرے پیارے دوستو! یہ اصول مراعات یافتہ طبقے کی ایجاد ہیں۔ وہ ان اصولوں کی بنیاد پر اپنی غصب شدہ طاقت، سرمائے اور برتری کا جواز پیش کرتے ہیں۔

اپٹن سنکلیئر نے لکھا ہے کہ صرف ایک آدمی کو لافانی ہونے پر یقین دلاؤ اور پھر اس کی ساری دولت لوٹ لو۔ وہ آپ کو اس کام میں بڑبڑائے بغیر مدد کرے گا۔ مذہب کے   داعیوں اور اقتدار کے آقاوں کے اتحاد سے ہی جیلیں، پھانسیاں، کوڑے اور یہ اصول پیدا ہوتے ہیں۔

·         میں پوچھتا ہوں کہ تمہارا  قادرمطلق خدا ہر شخص کو جب کوئی گناہ یا جرم کرتا ہے تو اسے کیوں نہیں روکتا؟ وہ یہ کام بہت آسانی سے کر سکتا ہے۔ اس نے جنگجو بادشاہوں کی جنگی درندگی کا خاتمہ کیوں نہیں کیا اور اس طرح انسانیت کو عالمی جنگوں کی وجہ سے ہونے والی آفتوں سے نجات  کیوں نہیں دلائی؟ اس نے انگریزوں کے ذہنوں میں ہندوستان کو آزاد کرنے کا جذبہ کیوں نہیں پیدا کیا؟ وہ سرمایہ داروں کے دلوں میں پرہیزگاری کا جوش کیوں نہیں پیدا کرتا کہ وہ پیداوار کے ذرائع پر اپنے انفرادی ملکیتی حقوق کو ترک کر دیں اور اس طرح نہ صرف پوری محنت کش طبقے کو بلکہ پورے انسانی معاشرے کو سرمایہ دارانہ زنجیروں سے آزاد کر دیں؟آپ سوشلزم کی عملییت پر بحث کرنا چاہتے ہیں۔ میں اس کو نافذ کرنا آپ کے رب پر چھوڑتا ہوں۔ جہاں تک عام بھلائی کا تعلق ہے لوگ سوشلزم کی خوبیوں پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ اس کے عملی نہ ہونے کا بہانہ بنا کر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ خدا آئے اور کام صحیح طریقے سے کردے۔

برطانوی حکومت یہاں اس لیے نہیں ہے کہ خدا چاہتا ہے بلکہ اس لیے ہے کہ ان کے پاس طاقت ہے اور ہم ان کی مخالفت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ انہوں نے ہمیں خدا کی مدد سے نہیں بلکہ بندوقوں، رائفلوں، بموں اور گولیوں، پولیس اور فوج کی مدد سے اپنے تسلط میں رکھا ہے۔ یہ ہماری بے حسی ہے کہ وہ معاشرے کے خلاف انتہائی قابل مذمت جرم یعنی ایک قوم کا دوسری قوم کے ہاتھوں ظالمانہ استحصال کا کامیابی سے ارتکاب کر رہے ہیں۔ خدا کہاں ہے؟ کیا وہ بنی نوع انسان کے ان مصائب سے لطف اندوز ہو رہا ہے؟ ایک نیرو، ایک چنگیز، فنا ہو!

کیا تم مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں اس دنیا کی ابتداء اور انسان کی ابتداء کیسے بیان کرسکتا ہوں؟ ٹھیک ہے، میں تم کو بتاتا ہوں۔ چارلس ڈارون نے اس موضوع پر کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اسے پڑھو۔ یہ فطرت کا ایک مظہر ہے۔ زمین ایک نیبولا کی شکل میں مختلف مادوں کے بے ترتیب مرکب سے بنی ۔ کب؟       تاریخ دیکھو۔ اس قسم کے واقعات سے جانور پیدا ہوئے اور ایک طویل عرصے میں انسان۔ ڈارون کی 'آغاز انوع' پڑھیں۔ اور اس کے بعد تمام ترقی انسان کی فطرت کے خلاف مسلسل مخالفت اور اس پر فتح حاصل کرنے کی کوششوں کی وجہ سے ہوئی۔ یہ شاید اس رجحان کی سب سے لطیف تشریح ہے۔

تمہاری دوسری دلیل یہ ہو سکتی ہے کہ بچہ اندھا یا لنگڑا کیوں پیدا ہوتا ہے۔ کیا یہ پچھلے جنم کے اعمال کا نتیجہ نہیں؟ ماہرین حیاتیات نے اس مسئلے کا سائنسی حل تلاش کر لیا ہے۔ یقیناً تم ایک اور بچکانہ سوال پوچھ سکتےہو۔ اگر خدا نہیں ہے تو پھر لوگ اس پر ایمان کیوں لانےلگے؟  میرا جواب لطیف اور واضح ہے۔ جس طرح وہ بھوتوں اور بُری آتماؤں  پر یقین کرنے لگے۔ فرق صرف یہ ہے کہ خدا پر عقیدہ آفاقی ہے اور فلسفہ بہت ترقی یافتہ ہے۔ اس کی ابتدا کا سہرا ان استحصال کرنے والوں کے سر ہے، جو خدا کے وجود کی تبلیغ کر کے لوگوں کو اپنے زیر تسلط رکھنا چاہتے تھے اور ان سے اپنے خاص مقام کا حق اور منظوری چاہتے تھے۔ تمام مذاہب، فرقے،جماعت اور اس طرح کے دوسرے ادارے بے رحم اور استحصالی اداروں، افراد اور طبقات کے حامی ہیں۔ بادشاہ کے خلاف بغاوت ہر مذہب میں ہمیشہ گناہ ہی رہا ہے۔

انسان کی حدوں کو پہچانتے ہوئے، اس کی کمزوری کو سمجھنے کے بعد اسے آزمائش کے وقت انسان کو بہادری سے سامنا کرنے کے لئے، مردانگی کے ساتھ تمام خطرات کا مقابلہ کرنے اور اس کی دولت اور شان و شوکت کی چمک کو کو روکنے کی ترغیب کے لیے  ایک خیالی خدا کا  وجود پیدا ہوا۔ اس کے ذاتی اصولوں اور سخاوت سے بھرے خدا کا تصور کیا گیا اور اسے مبالغہ آمیز انداز میں پیش کیا گیا۔ جب اس کی سختی اور ذاتی اصولوں پر بات کی جاتی ہے، تو اسے عذاب دینے والے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ تاکہ کوئی انسان معاشرے کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔اور  جب اس کی خوبیوں کی وضاحت کی جاتی ہے، تو اسے باپ، ماں، بھائی، بہن، دوست اور مددگار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کوئی آدمی اپنے تمام دوستوں کی طرف سے دھوکہ دہی اور ترک کیے جانے کی وجہ سے سخت تکلیف میں ہوتا ہے، تو وہ اس سوچ سے تسلی حاصل کر سکتا ہے کہ ایک سچا دوست ہمیشہ اس کی مدد، کے لیے موجود ہے اور یہ کہ وہ قادر مطلق ہے اور کچھ بھی کر سکتا ہے۔ درحقیقت قدیم زمانے میں یہ معاشرے کے لیے مفید تھا۔

درد میں مبتلا آدمی کے لیے خدا کا تصور مفید ہے۔ معاشرے کو اس عقیدے کے خلاف لڑنا ہوگا۔ جب انسان اپنے قدموں پر کھڑا ہونے  کی کوشش کرتا ہے تو حقیقت پسند بن جاتا ہے۔تب اسے ایمان کو ایک طرف پھینک دینا چاہئےا اور ان تمام مصیبتوں اور تکلیفوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہیئےجو حالات اس پر ڈال سکتے ہیں۔ یہ آج میرا موقف ہے۔ یہ میری اَنا نہیں ہے، میرے دوست! یہ میرے سوچنے کا طریقہ ہے ۔جس نے مجھے مُلحد بنا دیا ہے۔ میں خدا پر ایمان اور روزانہ کی دعاو عبادت کو انسان کے لیے سب سے زیادہ خود غرض اور گرا ہوا کام سمجھتا ہوں۔ میں نے مُلحدوں کے بارے میں پڑھا ہے جنہوں نے تمام مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ اس لیے میں بھی ایک آدمی کی طرح آخری دم تک سر اونچا رکھ کر پھانسی کے تختے پر کھڑا رہنا چاہتا ہوں۔

ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ میں کیسے نِبھا پاتاہوں۔ میرے ایک دوست نے مجھے دعاو عبادت کرنے کو کہا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں مُلحد ہوں تو اس نے کہا، 'اپنے آخری دنوں میں تم یقین کرناشروع کر دو گے،' میں نے کہا- 'نہیں، پیارے دوست، ایسا نہیں ہوگا۔ میں اسے اپنے لیے ذلت اور بےعزتی سمجھتا ہوں۔ خود غرضی کی وجہ سے میں دعا اور عبادت نہیں کروں گا۔

 قارئین اور دوستو، کیا یہ اَنا ہے…….؟  اگر ہاں، تو میں قبول کرتا ہوں۔



مترجم- فرید احمد


 

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ