ہلدوانی
کی جامع مسجد اور عبداللہ بلڈنگ کی تاریخ
مترجم- فرید
احمد
یہ
کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے جب ہلدوانی کے کئی مقامات کو وہاں بنی ہوئی بڑی عمارتوں کے نام سےجانا جاتا
تھا۔ جیسے سمتا آشرم، عبداللہ بلڈنگ، سرنا کوٹھی، پیلی کوٹھی، چودھری بھون وغیرہ۔
تب ہلدوانی سے لے کر کاٹھ گودام تک نینی تال روڈ تک کوئی مستقل بستی نہیں تھی۔ ان
دنوں نینی تال بریلی روڈ میں عبداللہ بلڈنگ ایک بڑالینڈ مارک ہوا کرتی تھی۔
ہلدوانی
کے بریلی روڈ میں عبداللہ بلڈنگ آج بھی مشہور ہے۔ اس بارے میں ماجد صاحب بتاتے ہیں
کہ ان کے باغ کی مرکزی جگہ پر 1902 میں عمارت کی تعمیر شروع ہوئی اور عمارت سازی
کے ہنر مندوں کے ہاتھوں اس میں بہتری آتی گئی۔ اسے 1920 سے تجارتی جگہ کے طور پر
استعمال کیا جانے لگا۔ اس وقت یہاں جنگلی جانور آزاد گھومتے نظر آتے تھے۔ تب
کالاڈھونگی ہلدوانی سے بڑی جگہ ہوا کرتا تھا۔ کاروبار کا مرکز کالاڈھونگی ہونے کی
وجہ سے تاجروں کو وہاں آنا جانا پڑتا تھا۔ پھر عبداللہ صاحب کی منگل پاڑو کی عمارت
کے سامنے ایک گراؤنڈ تھا جہاں سامان بیل گاڑیوں سے اترتا تھا اور منگل کی منڈی لگتی
تھی۔ آج وہ گراؤنڈ مکمل طور پر تجاوزات کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ 1936 میں بنبھول
پورہ میں ان کے خاندان نے گھر بنایا ۔ اس طرح شہر کی آباد کاری کے ساتھ اس ممتاز
خاندان کا غلبہ آج بھی برقرار ہے۔
عبداللہ
خاندان کے ایک بزرگ 85 سالہ قیوم صاحب، جو شہر کی آباد کاری میں اہم تھے، کہتے ہیں
کہ ہلدوانی میں کبھی کوئی فساد نہیں ہوا۔ 1857 میں ان کے دادا حاجی مہتاب تاج پور
کی ریاست سے ہلدوانی آئے۔ یہیں ان کے والد اللہ بخش کی پیدائش ہوئی۔ چار بھائیوں میں
سب سے چھوٹے، قیوم صاحب اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ انگریزوں
کا دور تھا اور ان کے بزرگ نینی تال، الموڑہ میں بیل گاڑیوں سے کاروبار کرتے تھے۔ ان
کو بھابڑ کا سب سے بڑا غلہ کا تاجر سمجھا
جاتا تھا۔ کالاڈھونگی ہلدوانی سے بڑی تھی۔ دوسری جگہوں سے راشن لا کر کاروبار ہوا
کرتا تھا۔ پھر بھوٹیا تاجر پہاڑوں سے اون،
آلو وغیرہ سامان لاتے تھے اور صابن، گڑ وغیرہ بھیڑ بکریوں میں لاد کر لاتے تھے۔ وہ بتاتےہیں
کہ یہ تاجر چھوٹے مگر مضبوط جسم کے تھے۔ اس کا چہرہ سفیداور بھاری تھا۔ ان کا کیمپ
سردیوں میں لگتا تھا۔
عبدالقیوم
بتاتے ہیں کہ ہند پاک تقسیم کے دوران ہلدوانی سے کوئی بھی وہاں جانے کو تیار نہیں
ہوا۔ صرف ایک شخص جس کا نام حسن تھا پاکستان گیا۔ حسن کے پاس لائن نمبر 6 اور 7 میں
ایک گھر تھا، جس کا دعویٰ اسے پاکستان میں مل گیا۔ اس عرصے کے دوران ہلدوانی میں
تقریباً 25-30 پنجابی خاندانوں کو پناہ کی ضرورت تھی۔ ان کا خاندان مہاجرین کی مدد
کے لیے آگے آیا۔ یہ لوگ ان کے بریلی روڈ والے مکان میں کرایہ دار کی حیثیت سے رہتے
تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد اور بھائی ڈسٹرکٹ بورڈ کے ممبر تھے، پھر منگل
پاڑو کے قریب باہر سے کام کے لیے آنے والے پنجابیوں کو دکانیں الاٹ کی گئیں۔ منگل
پاڑو ایک مکمل میدان تھا۔ ان پرانے خاندانوں میں ملکراج جی، فلور مل والے، کراکری
والے، بخشی جی وغیرہ آج بھی ترقی کر رہے ہیں۔
وہ
بتاتے ہیں کہ بازار کی جامع مسجد پرانی
ہے۔ غالباً 1870 میں بنائی گئی تھی ۔ تب یہ ایک چھوٹی سی مسجد تھی، اس کے ارد گرد
ایک گلی تھی۔ اس وقت اس کے اردگرد تجاوزات قائم ہیں۔ رام پور روڈ میں، جہاں آج
ہندو دھرم شالہ ہے، یہاں بکرے کا گوشت فروخت ہوتا تھا، اور اس کے بعد کھیت اور
جنگل تھے، جہاں لوگ کھلے میں رفع حاجت کے لیے جاتے تھے۔ بعد میں یہ جگہ بورڈ نے
دھرم شالہ کے لیے دی تھی۔ پرانی یادوں میں جاتے ہوئے قیوم صاحب بتاتے ہیں کہ انگریزوں
کے دور میں قیوم خان نامی ایک خوشحال شخص بھی ہوا کرتا تھا جو بورڈ کے چیئرمین بھی
تھے۔ اس کا عیدگاہ کے اوپر باٹا کی دکان تک اور کالاڈھونگی روڈ سے مکھانی نہر کے
قریب باغ تھا۔ فتح پور، نانک متہ میں بھی ان کے باغات تھے۔ وقت کی بات ہے، سب کچھ
بک چکا ہے اور کچھ گھیر لیا گیا ہے۔
تیس
سال تک میونسپل بورڈ کے ممبر رہنے والے عبدالقیوم صاحب نے کے ۔سی۔ پنت کے خلاف ایم
پی کا الیکشن لڑنے کی تیاری کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ 1958 کے آس پاس، جب بریلی کے میر
گنج، نینی تال کی ایم پی سیٹ ہوا کرتی تھی، وہ انتخابی میدان میں اترے۔ اس کے بعد
کئی کانگریسی ان کے پاس آئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ پنڈت گووند بلبھ پنت کا
حوالہ دے کر کے سی۔ پنت۔ جی کی حمایت میں انتخابی میدان سے اپنا نام واپس لے لیں۔
پھر وہ پنت جی کے ساتھ شامل ہو گئے۔ ان
دنوں لوگ رنگین ڈبوں میں بیلٹ پیپر ڈال کر ووٹ ڈالتے تھے۔ موجودہ قیادت اور بلیک
مارکیٹنگ سے دکھی عبدالقیوم صاحب کہتے ہیں کہ ان دنوں میونسپل بورڈ میں دو پیسے کی
بھی ہیرا پھیری نہیں ہوتی تھی۔ اب سیاستدانوں کو چور کہا جاتا ہے۔
عبداللہ
صاحب کے بیٹے ارشاد حسین ہائی کورٹ نینی تال میں جج رہ چکے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے
بعد وہ پانچ سال تک اتراکھنڈ کنزیومر فورم کے چیئرمین کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
ہم
آہنگی کے اس شہر کا رابطہ پہاڑوں اور میدانوں دونوں سے تھا جس کی وجہ سے یہاں پر
مسلمانوں کی بنجارہ برادری کا غلبہ بھی قائم ہے۔ انہیں آج بھی ان کی محنت اور عزم
کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ آج بھی پہاڑی لوگوں کو بنجاروں کی باتوں پر پورا
بھروسہ ہے۔ ان کے کاروبار کی جڑ بجنور، بریلی، پیلی بھیت، رام پور، مراد آباد،
ہلدوانی سے شروع ہوئی اور پھر پہاڑ تک جاری رہیں۔
تاجروں
کی ان نسلوں میں سے ایک 52 سالہ ایڈووکیٹ محمد یوسف کا کہنا ہے کہ ان کے والد
محمد۔ اسحاق اور دادا محمد۔ عبداللہ اور پردادا زلفی صاحب تھے، جب کہ نانا حاجی
مہتاب حسین اور پردادا حاجی اللہ بخش۔ بنجاروں کا یہ خاندان 1857 میں تاج پور ریاست
بجنور سے ہلدوانی آیا تھا۔ اپنے بزرگوں سے جو کچھ سنا اس کی بنیاد پر وکیل صاحب
بتاتے ہیں کہ ہلدوانی کا کاروبار بجنور سے بھی پرانا رہا ہوگا لیکن ان کے پردادا یہاں
آکر آباد ہوگئے۔ تب بجنور کے تاجر خواتین کے اسپتال کے سامنے رک جاتے تھے۔ بازار کی
خالی جگہ پر نماز پڑھی جاتی تھی۔
انگریزوں
نے ان تاجروں کو شہر کے ایک طرف آباد کر دیا لیکن نماز کی جگہ پر چھپرڈال کر نماز کی پہچان قائم رہی۔ وقف بورڈ ریکارڈ نمبر
1، 2، 3، 6 اور 7 میں اس مسجد کا ذکرآ یا ہے۔ بجنور ضلع کے تاج پور کے منگل کھیڑا
کے رہنے والے بنجارے حافظ عبدالرحیف اس کے پہلے امام تھے۔ پھر سوداگر پہاڑوں پر گلہ اور
گُڑ لے جاتے تھے اور واپسی میں چونا پتھر
بھی لاتے تھے۔ لوگوں نے خود چونے کے بھٹے میں چونا پکا کر یہ مسجد بنائی تھی۔
مرحوم
آنند بلبھ اپریٹی کی کتاب ہلدوانی – اسمرتیوں
کے جھاروکھے سے پر مبنی
کفال
ٹری فاؤنڈیشن
https://www.kafaltree.com/history-jama-masjid-and-abdullah-building-of-haldwani
0 टिप्पणियाँ