Ad Code

New Update
Loading...

اُتراکھَنڈ کی عظیم خاتون: گورا پنت شیوانی

 


اُتراکھَنڈ کی عظیم  خاتون: گورا پنت شیوانی

گورا پَنت شیوانی  کی پیدائش بھلے ہی گجرات میں ہوئی ہو، لیکن وہ اپنی تحریروں میں اپنےبزرگوں کی زمین یعنی صوبہ ا ُتراکھند کے کُماؤں کی نمائندہ مصنفہ ہیں۔  لوک ثقافت کی جھلک اور کرداروں کی منفرد خصوصیات کو پیش کرنے کا ہُنر بخوبی جانتی تھیں ۔ ان کے قلم نے کُماؤں کے علاقے کے لوگوں کے جذبات اور زندگی کے تجربات کو بڑی گہرائی اور خلوص کے ساتھ پیش کیا ہے۔

 

١٧   اکتوبر ١٩٢٣ء گجرات کے راجکوٹ میں شیوانی کی پیدائش   ایک  علم دوست اور ادبی خاندان میں ہوئی۔ آپ کے آباؤاجداد اُتراکھنڈ صوبے کےالموڑا شہر کے رہنے والے تھے۔ 

شیوانی کے والد کا نام اَشونی کمار پانڈے تھا۔ جو جدید ترقی پسند نظریات کے حامی تھے، راجکوٹ میں واقع 'راج کمار کالج' کے پرنسپل رہے۔بعد میں انہوں نے ماناوَدر اور رائے پور کی شاہی ریاستوں میں دیوان کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دیں۔

شیوانی کی والدہ کا نام لِیلاوَتی پانڈے تھا۔ وہ سنسکرت، انگریزی، ہندی اور گجراتی ادب کی عالمہ رہیں۔  لیلاوَتی کو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔گھر میں ہندی، گجراتی ،سنسکرت  اور دیگر کتب کی ایک بھرپور لائبریری قائم کی ہوئی تھی۔ تا عمر خواتین کی تعلیم کے لئے فکرمند  رہی۔ لکھنؤ کالج کے قیام میں بھی  آپ کی کوششیں اور  اہم تعاون رہا۔

   شیوانی کا پورا نام گُورا پَنت تھا۔ بچپن میں  'گُورا' ہی نام سے جانا اور پہچانا جاتا رہا۔ ١٩٥١ء میں 'دَھرم یُگ ' نامی ایک رسالہ  میں کہانی  'میں مُرغا ہوں' شیوانی  نام سے   شائع ہوئی اور پھر گُورا پَنت، شیوانی نام سے ہی تاعمر لکھتی رہیں اور اسی نام سے معروف و مشہور ہوئی۔

 شیوانی کی ابتدائی تعلیم 'شانتی نِکیتن' سے ہوئی۔ شانتی نِکیتن میں شیوانی٩سالوں تک زیرتعلیم رہیں جہاں  روِیندر ناتھ ٹھاکُر جیسے عظیم معلم سے آپ نے فیض حاصل کیا۔  اچاریہ ہَزاری پرساد دُویدی سے ہندی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی اور  معروف اداکار بَلراج ساہنی انگریزی زبان کے استاد رہے۔   معروف و مشہور فِلم ڈائریکٹر  سَتیہ جِیت رے  آپ کے ہم سبق رہے۔[1] شَانتی نَکِیتن کے رسالہ میں شیوانی کی تصانیف شائع ہوتی رہیں۔

بی .اے کی تعلیم کے دوران ہی  ١٩٤٥ ء میں شیوانی کی شادی   'سُکدیو پَنت' سے کر دی گئی۔ سُکدیو پنت لیکچرار تھے اور بعد میں وزارت تعلیم میں جوائنٹ سیکیٹری کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ شادی کے بعد شیوانی کی شخصیت میں اور بھی نکھار آ گیا تھا۔  کیونکہ  شیوانی کے شوہر سُکدیو پَنت نے شیوانی کی تحریر کے فن کو صرف قبول ہی نہیں کیا ، بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی ۔ اور کبھی بھی کسی طرح کی رکاوٹ پیش نہ آنے دی۔ لیکن ١٩٧٤ ء میں سُکدیو پنت کا انتقال ہو گیا۔  اپنے شوہر کا ذکر کرتے ہوئے شیوانی کہتی ہیں-

" ان کی آخری سانس تک مجھے یہ  اطمینان رہا کہ شاید  میں محبت کی شادی کر بھی لیتی تو مجھے اتنا اچھا شوہر نہ ملتا۔"  [2]

شیوانی کی چار اولایں ہویں۔ تین بیٹیاں - وِینو، مِرنال اور اِرا۔ ایک بیٹاجس کا نام مُکتیش ہے۔    

شیوانی کی لکھنؤ کی رہائش گاہ، گلستان کالونی کے دروازے ادیبوں، فنکاروں اور ادب سے محبت کرنے والوں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔

٢١ مارچ ٢٠٠٣ ء کو  دہلی میں ہندی ادب اور اُتراکھنڈ  کی مایَہ ناز شخصیت گُورا پَنت'  شیوانی' نے  اس  دنیا ئےفانی کو خیرباد کہا۔

شیوانی نے کم عمر سے ہی  لکھنا شروع کر دیا تھا۔ صرف ب١٢ سال کی عمر میں شیوانی کی پہلی تحریر   اُتراکھنڈ کے الموڑا  سے چھپنے والی بچوں کی میگزین '  نَٹ کَھٹ'  میں شائع ہوئی۔ اور پھر٧٩ سال تک لکھنے اور چھپنے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ آپ نے ہندی ادب کی مختلف اصناف ناول، کہانیان، سوانح عمری، ادبِ اطفال،  یادداشتیں  کے علاوہ  مختلف عنوان  پر مضامین اور کالم بھی لکھے۔

ناول - مایاپوری(١٩٥٧)، چودہ پھیرے (١٩٦٠)، کِرشنا کلی (١٩٦٢)، بھیِروی (١٩٦٩)،شَمشَان چَمپا(١٩٧٢)، سُرنگ ماَ (١٩٧٢)، کِینجا (١٩٧٢)، ابھِی نئے      (١٩٧٥)،                                                                                                       وِش کَنیا (١٩٧٧)،   رَتی وِلاپ (١٩٧٧)، مَنِک (١٩٧٧)، رَتھیا (١٩٧٧)، تَرپَن (١٩٧٧)، گیندا (١٩٧٨)، کِسنُلی کا ڈَھانٹا (١٩٧٩)،   کِرشنا وینی(١٩٨١)  چل خُسرو گھر اپنے (١٩٨٢) ، محبت (١٩٨٤) ،  وِروَت (١٩٨٥)، تیسرا بیٹا (١٩٨٥)، پوتوں والی (١٩٨٦) ، بدلہ (١٩٨٦)، پاَتھئے (١٩٨٦)،اتِتھیِ (١٩٨٩)، کاَلِندی (١٩٩٠)۔

کہانی  کےمجموعے-  پُشپ ہار (١٩٧١)، اَرادھنِی (١٩٧٢)، چِر سُیم وَرا (١٩٨٤)، کریئے چِھما (١٩٨٤)، میرا بھائی (١٩٨٩)، لال حویلی (١٩٨٨)۔

یادداشتیں-  چار دِن کی (١٩٧٨)، بِنّو (١٩٧٨)، مَنزیر (١٩٨٠)، جھروکھا (١٩٨١) جھولا (١٩٨١)، آموُدَر شَانتِی نِکیتن (١٩٨٦)، ایک تھی شَمرَتی(١٩٨٦)۔

مضامین کے مجموعے-  جَالک (١٩٧٢)، گَوَاکش (١٩٧٥)، واتَا یَن (١٩٧٦)، دریچہ (١٩٧٦)،  آ کرش(١٩٨٩)۔

سفر نامہ -  چَرے وِیتِی (١٩٧٨)، یَاترِک (١٩٧٩)۔

لوک ادب- ہے دَتّا  ترئے' (١٩٨٠)

رپورتاژ-   اَپرادھنِی

ادبِ  اطفال- سوکھا گلاب، سُوامی بھگت چوہا، رادھِکا سُندری، الوِداع ہَر ہَر گَنگے، آئس کریم محل  ۔

دیگر تصانیف-  کُماؤں کی جنگل کتھائیں،  کُماؤں کی پَنچھی کتھائیں۔[3]

انعام و اعزاز-

·   اُتّر پردیش ہندی سَنستَھا کی جانب سے خصوصی انعام  ١٩٧١ ء  

·   اُتّر پردیش ہندی سَنستَھا کی جانب سے خصوصی انعام  ١٩٧٤ء  

·   اُتّر پردیش ہندی سَنستَھا کی جانب سے پریم چنداعزاز ١٩٧٦ء  

·   اُتر پردیش ہندی سَنستھَا کی جانب سے سطحی انعام ١٩٧٨ء  

·   ایوارڈ تنطیم کی جانب سے ہندی-اردو ساہتیہ انعام

·   اُتّر پردیش ہندی سَنستَھا کی جانب سے رام چند شُکل اعزاز   ١٩٨٠ء

·   حکومتِ ہند کی جانب سے  پدم شری اعزاز  ١٩٨٢ء   

·   مرکزی ہندی سَنستھَان کی جانب   کے سُبَرمَنیَم بھارتی اعزاز ١٩٩٢ء

·   حکومتِ مہاراشترہ کی جانب سے  ہندی اکادمی اعزاز١٩٩٦ء[4]

·   کلکتہ جَن وانی سمّان ساہتیہ نَدھِی کی جان  سے بکِم انعام ١٩٩٧ء



[1] कु० शशिबाला पंजाबी, शिवानी के उपन्या सों का रचना-विधान, पृष्ठ 23

[2] डॉ० सुष्मा पुरवार, शिवानी क उपन्यासों के पात्र, पृष्ठ 24

[3] शिवानी का कहानी साहित्य: कथ्य एवं शिल्प , कु० संजीवनी सुरेश देशमुख, शोध ग्रन्थ 2012

[4] शिवानी, जालक, पृष्ठ 86 





एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ