فرقہ واریت اور مہاتما گاندھی
فرید احمد
ہندوستان مختلف مذاہب کا ملاِ جھلا ملک ہے۔ ان تمام مذاہب کا بہمی اتحاد اور احترام ہمارے ملک میں امن، خوشحالی اور ترقی کے لئے بہت ہی ضروری ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک ہندوستان میں کچھ ایسی طاقتیں ہیں جو اتحاد اور ہم آہنگی کے خلاف قبل آزادی سے آج تک مسلسل پروپیگنڈا کرتی آ رہی ہیں۔
جدوجہدآزادی کے دوران یہ خاص طور پر دیکھا گیا ہے کہ لاکھوں کروڑوں ہندوستانیوں کی محبت اور احترام حاصل کرنے والے تمام عظیم رہنما مختلف مذاہب کے اتحاد، ہم آہنگی اور بھائی چارے کے زبردست حامی رہےجن ہوں نے مکمل طور پر فرقہ پرستی، فرقہ واریت سے لڑنے میں اپنی زندگی کو وقف کر دیا۔ ان عظیم شخصیتوں کی فہرست میں سب سے اوّل نام ہندوستان کی تحریک آزادی کے عظیم رہنما مہاتما گاندھی کا آتا ہے۔ جنہوں نے اپنی تمام عمر ہندوستان کی آزادی،مختلف مذاہب کے اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ میں لگا دی۔
مہاتما گاندھی کے خطبات،بیان،مضامین، کتب اور تحریروں میں فرقہ واریت کی مخالفت اور اتحاد و ہم آہنگی کو اعلانیہ طور دیکھا جا سکتا ہے۔
گاندھی جی کہتے ہیں۔ ”میری خواہش ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو میں اپنے خون سے ہندو اور مسلمان کے باہمی تعلقات کومضبوط کروں“(ینگ انڈیا،25-09-1924)
” گاندھی جی کا یہ ماننا تھا کہ ہندوستان میں فرقہ واریت اور ہندو مسلمان نفرت انگریزوں کی پیدا کی ہوئی ہے۔ جس کی بنیاد حکومت ہے۔
”پہلے ہندو، مسلمان بادشاہوں کے، اور مسلمان، ہندو بادشاہوں کے ماتحت رہتے تھے۔ دونوں نے بعد میں سمجھ لیا کہ لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کوئی لڑکر اپنا مذہب نہیں چھوڑ ے گا اور کوئی اپنی ضد بھی نہیں چھورے گا۔ چناچہ دونوں نے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن جھگڑے تو پھر انگریزوں نے شروع کرائے۔“ (ہند سوراج، صفحہ: 32)
گاندھی جی کہتے ہیں -”میں ہندوؤں سے بھی اتنی ہی محبت کرتا ہوں جتنی کہ مسلمانوں سے۔ میرے دل میں ہندوؤوں کے لیے جو جذبات پیدا ہوتے ہیں، وہ ہی جذبات مسلمانون کے لئے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اگر میں اپنا دل چیر کر دکھا سکتا تو، آپ دیکھ پاتے کہ اس میں الگ الگ حصہ نہیں ہیں، ایک ہندوؤں کے لئے اور ایک مسلمانوں کے لئے، اور تیسرا کسی دیگر کے لئے۔“ (ینگ انڈیا، 13-08-1921)
گاندھی جی مذہب تبدیلی کے حق میں نہیں تھے۔ آپ کا خیال تھا کہ مذہب کی تبدیلی سے اتحاد پیدا نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ عمل مذہب مخالف رجحانات کو جنم دیتا ہے۔ جبکہ دنیا کے تمام مذاہب ایک ہی جگہ آکر ملتے ہیں۔ مذہب تبدیلی سے بہتر ہے کہ اچھا ہندو، اچھا مسلمان اور سب سے بہتر ایک اچھا انسان اور ایک اچھاشہری ہونا چاہئے۔
”کیا ہم نے مذہب تبدیل کر لیا تو، ہم آپس میں دشمن بن گئے؟ مذہب تو ایک ہی جگہ پہنچنے کے الگ الگ راستے ہیں۔ہم دونوں الگ الگ راستہ لیں، اس میں کیا ہو گیا؟ اس میں لڑائی کس بات کی؟ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے ایک دوسرے کے قریب آنا ضروری ہے۔ ہندوؤں کر چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے لئے مدد کا ہاتھ بڑھائیں اور اکثریت میں ہونے کے ناطے ان پر زبردستی اپنے حقوق مسلط نہ کریں۔ اگر ہندو یہ مانتے ہیں کہ پورا ہندوستان صرف ہندوؤں سے بھر جائے تو، یہ ایک خواب ہے۔ اور اگر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں صرف مسلمانوں کو ہی رہنا چاہیے تو، اسے بھی صرف خواب ہی سمجھیں۔“ (ہند سوراج، صفحہ:-31 32)
19 ویں صدی میں جب’گؤ رَکشاتحریک‘ نے زور پکڑا تو ہندوستان کے مختلف شہروں اور علاقوں میں ہندو مسلم فساد پیدا ہو گئے اور 20 ویں صدی تک آتے آتے اس تحریک نے مذہبی شکل اختیار کر لی۔ گاندھی جی کا خیال تھا کہ یہ مسئلہ طاقت کے استعمال سے حل نہیں کیا جا سکتاہے اور نہ ہی تشدد کے ذریعے گائے کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔ اس مسئلہ کا حل کو بیان کرتے ہوئے گاندھی جی کہتے ہیں-
جنوری 1948ء میں اپنی شہادت سے چند روز قبل گاندھی جی نے کہا تھا کہ”جب میں جوان تھا اور سیاست کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا، تب ہی سے میں ہندواور مسلمان وغیرہ کے اتحاد کا خواب دیکھتا آیا ہوں۔ اپنی زندگی کی شام میں اپنے اس خواب کو پورا ہوتے دیکھ کر میں چھوٹے بچوں کی طرح ناچوں گا۔ ایسے خواب کی تکمیل کے لئے کون اپنی جان قربان کرنا پسند نہیں کریگا؟ تب ہی ہمیں حقیقی آزادی ملے گی۔“ (پوُرنا ہوتِی، جلد ۴، صفحہ ۲۲۳)
گاندھی جی کے لئے آزاد ہندوستان کی بنیاد یہ تھی کہ تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے، اور نہ ہی کسی ایک مذہب یا فرقہ کی حکومت کو ہندوستان پر مسلط کر دی جائے۔ گاندھی جی کہتے ہیں کہ- ”آزاد ہندوستان میں حکومت ہندوؤں کی نہیں بلکہ ہندوستانیوں کی ہوگی، اور اس کی بنیاد کسی مذہب یا فرقہ کی اکثریت پر نہیں، بلکہ بغیر کسی مذہبی تفریق کے پوری قوم کے نمائندوں پر ہوگی۔ مذہب ذاتی موضوع ہے، سیاست میں اسکی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔“(ہریجن سیوک:09-08-1942)
’اپنے خوابوں کا ہندوستان‘ میں مہاتما گاندھی نے خواہش ظاہر کی کہ۔”میں ایک ایسا ہندوستان دیکھنا چاہوں گا، جس میں غریب ترین لوگ محسوس کریں گے کہ یہ ان کا ملک ہے، جس کو تعمیر کرنے میں ان کی ایک موژر آواز ہے۔ ایک ایسا ہندوستان جس میں کوئی اعلیٰ اور ادنیٰ طبقہ نہیں ہوگا۔لوگوں کا ایک ایسا ہندوستان جس میں تمام مذاہب اور برادریاں پوری طرح ہم آہنگی کے ساتھ رہیں گی۔“
لیکن یہ بد قسمتی کی بات کہ آزادی کے بعد سے آج تک ہندوستان میں پانچ ہزار سے بھی زیادہ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور ان فسادات میں زیادہ تر ہندوؤں اور مسلمان کے درمیان ہوئے۔ ہندوستان میں سنگین فرقہ وارانہ حالات پیدا کرنے میں سیاست دانوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ 1947ء میں ایک مخصوص مذہبی طبقے کے نام پر ہندوستان کی تکلیف دہ تقسیم کی جڑ میں سیاست ہی تھی۔ لیکن تقسیم کی صورت میں بھاری قیمت چکانے کے بعد بھی بہت سے بھڑکنے والے فسادات میں ہمیں براہ راست یا بالواسطہ طور پرسیاسی جماعتوں یا ان کے حامیون کا ہاتھ مل سکتا ہے۔اور اس کے ساتھ ووٹ بینک کی خاطر برادری، فرقہ، ذیلی فرقہ اور ذات پات کی بنیاد پر امیدواروں کا انتخاب اور انتخابات کے وقت مذہبی جذبات کو بھڑکانا فرقہ پرستی کو ہوا دینے کا باعث بنا۔ اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔
فرقہ واریت کے خاتمہ، اتحاد اور ہم آہنگی کے لئے ہم ہندوستانیوں کو اپنی اپنی مذہبی برادری اور قوم کے درمیان توازن قائم کرنا چاہیے اور اجتماعی کوششوں کے ذریعے فرقہ واریت کے خاتمہ کے لیے مہاتما گاندھی کی تعلیمات پر غوروفکر کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔ یہ ہی مہاتما گاندھی کے، آداز ہندوستان کا خواب تھا۔
0 टिप्पणियाँ